غیر جانبدار سفا رتی اور معاشی مبصرین کے مطابق یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ گزشتہ ماہ پاکستان ،چین اور افغانستان کے مابین اعلیٰ ترین سطح پر اس امر کا فیصلہ کیا گیا کہ چین ،پاکستان اور افغانستان کے مابین سی پیک منصوبے کو وسعت دی جائے گی اور ان تینوں ملکوں کے مابین خشکی اور ریلوے کا باقاعدہ نظام قائم ہو گا جو آگے چل کر وسطی ایشیا کے دیگر ملکوں تک بھی پھیلا ہوگا جس سے پورے خطے میں معاشی اور معاشرتی شعبوں کو وسعت ملے گی۔اسی تناظر میں مبصرین کے مطابق یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام، بدامنی اور غیر ملکی مداخلت کا شکار رہا ہے مگر ان تمام مشکلات کے باوجود، اگر کوئی ایک ملک ہے جس نے ہمیشہ افغانستان کا مخلصانہ ساتھ دیا ہے تو وہ پاکستان ہے۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ تاریخ، جغرافیہ، ثقافت اور مذہب کے بندھن میں بندھے دونوں ممالک کے درمیان رشتہ محض ہمسائیگی کا نہیں بلکہ برادرانہ وابستگی کا ہے۔ کسے معلوم نہیں کہ پاکستان نے ہر دور میں، چاہے وہ خانہ جنگی ہو، طالبان کا دورِ حکومت ہو یا غیر ملکی افواج کی موجودگی، افغانستان کی خودمختاری، ترقی اور خوشحالی کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بنیاد مشترکہ تاریخ اور تمدنی ہم آہنگی پر رکھی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 2,600 کلومیٹر طویل سرحد کے آر پار پشتون، تاجک، ہزارہ اور دیگر اقوام آباد ہیں جن کے درمیان خاندانی و قبائلی روابط صدیوں پر محیط ہیں۔ یہ رشتہ صرف جغرافیائی نہیں بلکہ دلوں کا رشتہ ہے، جس نے عوامی سطح پر قربت اور ہمدردی کو جنم دیا ہے۔واضح رہے کہ تاریخی طور پر افغانستان وسطی ایشیا اور برصغیر کے درمیان تجارتی و ثقافتی راہداری رہا ہے۔ ان قدیم راستوں کے ذریعے صرف مال و دولت کا تبادلہ نہیں ہوتا تھا بلکہ علم، تمدن، زبان اور مذہب بھی ایک خطے سے دوسرے میں منتقل ہوتے تھے۔ آج جب پاکستان علاقائی ربط کی بات کرتا ہے تو وہ انہی تاریخی رشتوں کی بحالی کی کوشش ہے ۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق پاکستان ہمیشہ سے ایک مستحکم، پرامن اور خوشحال افغانستان کو اپنی سیکیورٹی، معیشت اور علاقائی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھتا آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے افغان قیادت پر مبنی امن عمل کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کے لیے سفارتی، معاشی اور انسانی بنیادوں پر تعاون بھی جاری رکھا۔ چاہے کابل میں کوئی بھی حکومت برسرِاقتدار رہی ہو، پاکستان نے ہمیشہ خیرسگالی کا مظاہرہ کیا ہے۔اس ضمن میںپاکستان نے کبھی افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی پالیسی اختیار نہیں کی۔لیکن بدقسمتی سے کچھ افغان حکومتیں بھارتی اثرورسوخ کا شکار رہیں جس نے باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ بھارت نے افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی ہمیشہ کوشش کی، جس سے افغان سرزمین پر دہشتگرد گروہوں کو پنپنے کا موقع ملا۔ اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ گفت و شنید اور باہمی احترام کو ترجیح دی۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کا سب سے نمایاں کردار افغان مہاجرین کی میزبانی میں سامنے آتا ہے۔ 1979 سے لے کر آج تک پاکستان نے چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی اور طویل مدتی مہاجر میزبانیوں میں شمار ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں، 15 اگست 2021 کے بعد جب بیشتر مغربی ممالک افغانستان کے ساتھ تعاون سے پیچھے ہٹ گئے، پاکستان نے مزید 10 لاکھ افغانوں کو پناہ دی، وہ بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر۔ سفارتی مبصرین کے بقول یہ پاکستان کی اخلاقی برتری اور انسانی فلاح سے وابستگی کا عملی ثبوت ہے۔تعلیم کے شعبے میں پاکستان کی کاوشیں بے مثال ہیں کیوں کہ پاکستان نے نہ صرف افغان مہاجر بچوں کے لیے اسکول قائم کیے بلکہ ہزاروں افغان طلبہ کو وظائف فراہم کیے۔یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی جامعات میں سات ہزار سے زائد افغان طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ علامہ اقبال اسکالرشپ کے تحت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں افغان نوجوان آج اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں مصروف عمل ہیں۔افغانستان کے اندر پاکستان کے تعاون سے مکمل ہونے والے تعمیراتی منصوبے دو طرفہ تعلقات میں عملی پیشرفت کی علامت ہیں۔ یاد رہے کہ کابل یونیورسٹی، بلخ یونیورسٹی، ننگرہار یونیورسٹی میں جدید تعلیمی فیکلٹیز، پرائمری اسکولز، بسیں، اور تعلیمی کٹس کی فراہمی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان افغانستان میں انسانی سرمایہ کاری پر یقین رکھتا ہے۔علا وہ ازیں طبی شعبے میں بھی پاکستان کی خدمات لائقِ تحسین ہیں۔ جناح اسپتال کابل، نشتر گردہ سینٹر جلال آباد، اور نائب امین اللہ اسپتال لوگر جیسے منصوبوں نے ہزاروں افغانوں کو معیاری طبی سہولیات فراہم کیں۔یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ صرف ستمبر 2021 سے ستمبر 2022 کے درمیان پاکستان نے 25,000 ٹن سے زائد امدادی سامان افغانستان بھیجا، جس میں خوراک، ادویات، کپڑے، اور رہائشی سہولیات شامل تھیں۔ یہ امداد اس وقت دی گئی جب عالمی توجہ افغانستان سے ہٹ چکی تھی، لیکن پاکستان نے اپنی برادرانہ ذمہ داری نبھائی۔دیگر خدمات جیسے قندھار میں ٹی وی ٹرانسمیٹر، کمپیوٹرز، سیکیورٹی آلات، ہینڈ پمپ، چڑیا گھر اور پارکوں کی بحالی عام شہریوں کی روزمرہ زندگی میں بہتری کی کوششوں کا حصہ ہیں۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ رشتہ کسی وقتی مفاد یا سیاسی حکمتِ عملی کی بنیاد پر نہیں بلکہ خلوص، بھائی چارے اور انسانیت کی بنیاد پر استوار کیا ہے۔ یہ تعلق لین دین یا وقتی سفارتی مجبوری کا نام نہیں، بلکہ ایک آزمودہ اور دائمی رشتہ ہے جس میں دونوں قوموں کی تقدیریں جُڑی ہوئی ہیں۔یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ پاکستان کا ویژن ایک ایسا افغانستان ہے جو خودمختار، باوقار، پرامن اور ترقی یافتہ ہو کیونکہ یہی خطے کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔