مبصرین کے مطابق یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں میں بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر (IIOJK) کے علاقے پہلگام میں ہونے والا دہشت گرد حملہ ایک بار پھر جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کو چیلنج کرنے والا واقعہ ثابت ہوا کیوں کہ ا س مبینہ حملے کے فوری بعد بھارت نے حسبِ روایت بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزامات عائد کر دیے، جو نہ صرف غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے بلکہ بین الاقوامی سفارتی آداب کے بھی منافی ہے ۔ اس تمام پس منظر میں یہ بات خاص طور پر توجہ کی حامل ہے کہ 24اپریل کو بھارتی پارلیمنٹ میں منعقدہ APCمیں میں خود بھارتی ارکان لوک سبھاکی اکثریت نے پہگام میں ہونے والے مبینہ دہشتگردی کے واقعے کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ایک واقعے نے ایک بار پھر ظاہر کر دیا ہے کہ بھارت کا حکمران طبقہ قول وفعل کے بدترین تضاد کا شکار ہے اور ان کے کسی دعوے یا بات کو قابل بھروسہ قرار نہےں دیا جا سکتا۔ یاد رہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگانا کوئی نئی بات نہیں کیوں کہ جب بھی بھارت یا IIOJK میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے، تو بغیر کسی ثبوت کے فوری طور پر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ پہلگام حملے کے بعد بھارتی میڈیا اور حکومتی عہدیداروں نے مخصوص بیانیے کے تحت پاکستان کیخلاف پراپیگنڈا مہم کا آغاز کیا، جس کا مقصد دنیا کی توجہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے ہٹانا تھا۔اسی ضمن میں بھارتی میڈیا نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے جذباتی اور اشتعال انگیز رپورٹنگ کی، جس میں پاکستان کو دہشت گردی کا منبع ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کی گئی اوربھارتی عوام کو گمراہ کرنے کےلئے جھوٹے شواہد اور فرضی کہانیاں نشر کی گئیں۔یہ امر توجہ طلب ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا تاکہ اندرونی ناکامیوں پر پردہ ڈالا جا سکے لیکن دو سری جانب پاکستان نے بھارتی الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنا موقف پیش کیا اور پاک دفتر خارجہ اور وزیر خارجہ کی سطح پر سخت بیانات جاری کیے گئے، جن میں بھارت سے کہا گیا کہ وہ الزام تراشی کی بجائے شفاف تحقیقات کرے۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق پاکستان کا م¶قف واضح پر یہ رہا کہ وہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا اور اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیتا۔اس تمام معاملے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پہلگام حملے کے بعد وزیراعظم پاکستان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا، جس میں عسکری اور سویلین قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس میں بھارت کی الزام تراشی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا اور عالمی برادری سے اپیل کی گئی کہ وہ بھارتی پراپیگنڈے کا نوٹس لے۔اس ضمن میں اجلاس میں کہا گیا کہ پاکستان نہ صرف دہشت گردی کا شکار رہا ہے بلکہ اس کے خلاف ایک طویل اور کامیاب جنگ بھی لڑ چکا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ عالمی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے جھوٹے الزامات کا نوٹس لیا جائے اور خطے میں امن کےلئے مثبت کردار ادا کیا جائے۔ اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت تمام بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ بھارت پر زور ڈالیں کہ وہ الزام تراشی سے باز آئے اور شفاف تحقیقات کو یقینی بنائے۔مبصرین کے مطابق اس ضمن میں یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ عالمی میڈیا کا کردار بھی اس ضمن میں اہم ہے اور بھارتی میڈیا کے یک طرفہ م¶قف کے برعکس عالمی صحافتی اداروں کو چاہیے کہ وہ بھارت کے بیانات کو غیر جانبدارانہ انداز میں پیش کریں تاکہ دنیا حقیقت سے آگاہ ہو سکے ۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو جب یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370 ختم کیا، تب سے کشمیری عوام پر مظالم کا نیا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ بھارتی حکومت اس وقت شدید اندرونی سیاسی دبا¶ کا شکار ہے اور ایسے حملوں کو بہانہ بنا کر نام نہاد اپنی قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوشش کرتی ہے۔ پہلگام حملے کے بعد بھارتی حکومتی جماعت نے اپنی روایتی حکمت عملی اپناتے ہوئے پاکستان مخالف بیانات دیے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا سکے جبکہ پاکستان کی عسکری اور تمام سیاسی قیادت ہمیشہ یہ م¶قف اختیار کرتی رہی ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے جو تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ پاکستان کی قربانیاں دہشت گردی کےخلاف دنیا بھر میں تسلیم کی جا چکی ہیں لیکن اس کے باوجود جب بھارت جیسے ممالک بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزامات لگاتے ہیں تو یہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ خطے کے امن کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے۔سفارتی ماہرین کے بقول پاہلگام حملہ یقینا ایک افسوسناک واقعہ ہے جس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ تاہم اس حملے کو بنیاد بنا کر بھارت کی طرف سے پاکستان پر الزامات عائد کرنا، ایک پرانی اور فرسودہ حکمت عملی ہے جو اب دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہے۔ مبصرین کے مطابق پاکستان نے قومی سلامتی کمیٹی کے ذریعے جو م¶قف اختیار کیا ہے وہ قابل تحسین ہے اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کے اس پراپیگنڈا کو مسترد کرے اورمسئلہ کشمیر کا پائیدار حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے لہذا اس ضمن میں عالمی برادری کو ایک فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔