مبصرین کے مطابق یہ امر قابل ذکر ہے کہ 11 جون 1991 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے معروف علاقے *چھوٹا بازار* میں بھارتی قابض افواج نے ظلم و بربریت کی ایک ایسی داستان رقم کی جو آج بھی کشمیریوں کے دلوں میں تازہ ہے۔ تفصیل اس معاملے کی کچھ یوں ہے کہ اس المناک دن کو بھارتی نیم فوجی دستے *سی آر پی ایف* نے بلااشتعال نہتے کشمیری شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 32 معصوم جانیں، جن میں خواتین، بچے، اور بزرگ شامل تھے، خاک و خون میں نہا گئیں۔یاد رہے کہ اس انسانیت سوز واقعے کو اگرچہ 34 برس گزر چکے ہیں، مگر نہ انصاف ملا، نہ ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا گیا۔واضح رہے کہ چھوٹا بازار قتلِ عام کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، نہ آخری۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق بھارتی ریاست، جسے دنیا دنیا کی ”سب سے بڑی جمہوریت” کہتی ہے، درحقیقت مقبوضہ کشمیر میں ظلم، جبر اور انسانی حقوق کی پامالی کی ایک بدترین مثال ہے۔ بھارتی افواج نے مقبوضہ وادی کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے جہاں ہر کشمیری مشکوک، ہر نوجوان دہشتگرد اور ہر حقِ خودارادیت مانگنے والا غدار سمجھا جاتا ہے۔یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ بھارت نے 1947 سے آج تک کشمیریوں پر جس منظم طریقے سے ظلم و جبر کیا ہے، وہ مہذب دنیا کے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ بھارتی فورسز کی جانب سے جعلی مقابلے، من گھڑت سرچ آپریشنز، جبری گمشدگیاں، حراستی تشدد، اور ماورائے عدالت قتل معمول کی باتیں بن چکی ہیں۔اس ضمن میںاگرچہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور رپورٹرز بارہا ان مظالم کی نشاندہی کر چکے ہیں، مگر دنیا کی آنکھیں مفادات کی پٹی سے بند ہیں۔یاد رہے کہ چھوٹا بازار کی طرح کئی دیگر قتلِ عام بھی بھارتی بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہیںجن میں *21 جنوری 1990 ـ گوکدل قتلِ عام* جس میں سرینگر میں مظاہرین پر فائرنگ کی گئی جس میں 60 شہادتیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ* *6 جنوری 1993 میں سوپور قتلِ عام* اس واقعے میںبھارتی فوج نے بازار کو نذر آتش کر کے 55 شہریوں کو شہید کیا کر دیا تھا ۔علاوہ ازیں* *19 جنوری 1991 ـ سرینگر مال واقعہ جب 11 معصوم کشمیری بھارتی گولیوں کا نشانہ بنے۔اور اس کے علاوہ * **26 جنوری 1998 ـ وندھامہ گاندربل**: 26 کشمیری پنڈت بھارتی ایجنسیوں کے ”فالس فلیگ آپریشن” کا شکار بنے تاکہ آزادی کی تحریک کو بدنام کیا جا سکے۔یہ سب واقعات ایک بات واضح کرتے ہیں کہ بھارت کا مقصد صرف وادی میں اپنی عسکری گرفت مضبوط کرنا نہیں، بلکہ کشمیریوں کی آزادی کی آواز کو کچلنا ہے۔یہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن (OHCHR) نے 2018 اور 2019 کی اپنی رپورٹوں میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی اور ایک *کمیشن آف انکوائری (COI)* کے قیام کی تجویز دی مگر بھارت نے ان تجاویز کو مسترد کر دیا اور دنیا کی طاقتور قوتیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔یہ عالمی خاموشی اس لیے بھی مجرمانہ ہے کہ بھارت نہ صرف کشمیر بلکہ اپنی سرزمین پر بھی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔مبصرین کے مطابق مودی سرکار کے زیرِ سایہ بھارت ایک فاشسٹ، ہندوتوا پر مبنی ریاست بن چکا ہے، جہاں گاؤ رکھشا کے نام پر قتل عام، مساجد پر حملے، اور اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنا عام بات بن چکی ہے۔بھارت کا طرزِ عمل ایک اپارتھائیڈ ریاست جیسا ہو چکا ہے۔ جس طرح جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں کو انسان نہیں سمجھا جاتا تھا، ویسے ہی بھارت میں کشمیریوں اور اقلیتوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا کی آزادی، بھارتی عدلیہ کی خودمختاری، اور جمہوری اقدار کا جنازہ نکالا جا چکا ہے۔ یہ ریاست صرف اکثریتی ہندو طبقے کے لیے جمہوریت ہے، باقیوں کے لیے ایک فسطائی شکنجہ۔انسان دوست حلقوں کے مطابق یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی ہے اور پاکستانی قیادت اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر بارہا مطالبہ کر چکی ہے کہ کشمیریوں کو ان کا جائز حق دیا جائے، جو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت تسلیم شدہ ہے۔ پاکستان کا مؤقف واضح ہے: ظلم کسی بھی شکل میں قابلِ قبول نہیں، اور کشمیریوں کی جدوجہد ایک جائز اور پرامن تحریک ہے یوں چھوٹا بازار قتلِ عام بھارتی مظالم کی ایک علامت ہے، ایک ایسی چیخ جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، طاقتور مغربی ممالک اور اقوامِ متحدہ مفادات کی عینک سے صورتحال کو دیکھتے ہیں۔ایسے میںوقت آ چکا ہے کہ عالمی برادری خاموشی توڑے،نہتے کشمیریوں کے خون کا حساب مانگا جائے اوربھارت کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اقوامِ متحدہ غیر جانب دار تحقیقات کا آغاز کرے اور کشمیری عوام کو وہ حق دیا جائے جو ان کا پیدائشی، اخلاقی اور قانونی حق ہے –کشمیریوں کی آواز دبائی نہیں جا سکتی، کیونکہ یہ آواز صرف ایک قوا م کی آزادی کی پکار نہیں، بلکہ انسانیت کے ضمیر کی صدا ہے۔ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ عالمی برداری اس درندہ قابض بھارتی ریاست کو قانون اور انصاف کے کٹہرے میں لائے گی۔