ہر مہذب اور ترقی یافتہ ملک میںاوپرسے لے کر نیچے عام شہری تک قانون کی پابندی اور اس کی پاسداری کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ اسی تصور کی ہی بدولت ایسے ممالک کو زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کا موقع ملا۔ اس ضمن میں اسلام کے نظام عدل ا ور قانون کی پابندی کو دیکھا جائے تو ہمیں کئی روشن مثالیں ملتی ہیںجو پوری انسانیت کے لئے ایک رہنما اصول کے زمرے میں آتی ہے۔اسلام میں نہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی حکمران اپنی سیاسی بالا دستی کے باعث کسی عدالت کو متاثر کرکے اپنے حق میں کوئی فیصلہ کراسکتا ہے۔معاشرے کی بقا اور استحکام قانون کی حکمرانی انصاف کی حقیقی فراہمی اور آئینی کی بالادستی پر منحصر ہے قانون کی اہمیت و افادیت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کر سکتا قوانین معاشرے اور ریاست کے درمیان تعلق کو مستحکم اور پائیدار بناتے ہیں بلکہ لاقانونیت کی وجہ سے معاشرہ برباد ہوجاتا ہے انسان کی اصلاح اور معاشرے کی بقا قانون کے عملی نفاذ کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ قانون کی حکمرانی کسی معاشرے کی بقا کی اکائی ہے انسانی تہذیب و تمدن میں قانون کو بنیادی اہمیت حاصل ہے انسان نے حالات و واقعات سے عہدہ برآہ ہونے کے لیے عقل و شعور کی مدد سے نئے نئے قوانین بنائے جن کا بنیادی مقصد حیوانی جبلت پر کنٹرول تھا نیز قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کی فراہمی ہی معاشرے کی ضامن ہے ریاست میں حکومتی معاملات کی انجام دہی میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرنے والے تین بڑے ادارے ہوتے ہیں ان میں سے ایک قانون سازی کرنے والا مقننہ ہے، دوسرا مجلس قانون ساز (مقننہ)کے مرتب کردہ قوانین کو ان کی روح کے مطابق نافذ کرنے اور انتظام مملکت چلانے والا ادارہ انتظامیہ ہے حکومت کا تیسرا بڑا ادارہ عدلیہ ہے جس کا مقصد ریاست میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے حکومت کی اعلی کارکردگی کا دار و مدار اور انحصار نظام عدل پر ہوتا ہے ایک فرد اور دوسرے فرد کے درمیان ایک ریاست اور فرد کے حقوق و فرائض کا توازن قائم رکھنا اور ان کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا عدلیہ کی حقیقی ذمہ داری ہے انصاف قائم کرنے والی اقوام ہمیشہ سرخرو و بلند رہتی ہیں حضرت امام علی کا قول ہے کوئی معاشرہ ظلم کی بنیاد پر قائم رہ سکتا ہے لیکن ناانصافی کی بنیاد پر نہیں عدالتیں پسند و نا پسند کی بنیاد پر نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں اور ان فیصلوں کو تسلیم کرنا حکومت اور تمام اداروں کی ذمہ داری ہوتا ہے حکمران طبقات کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ معاشرے میں جب تک انصاف اور قانون کی حکمرانی کو یقینی نہیں بنایا جائے گا ہمارا معاشرہ بدامنی، بدحالی اور عدم تحفظ کا شکار رہے گا دور جدید سے لے کر آج تک معاشرے عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کے ذریعے پروان چڑھے ہیں۔ عدلیہ کے منصفانہ فیصلے ہی معاشرے میں امن و امان یقینی بناسکتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کریں اس کے بغیر ہمہ گیر ترقی محض ایک خواب بن کر رہ جائے گی ملک اس وقت کئی اندرونی و بیرونی بحرانوں سے گزر رہا ہے دہشت گرد پھر سے سراٹھا رہے ہیںسیاسی عدم استحکام آخر حدوں کو چھورہا ہے جو ملک کے لئے کسی سانحے کا بھی پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ یہ تشویشناک صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اور قومی ادارے جنہیں ایک ایک کرکے متنازعہ اور بے توقیر کیا جارہا ہے مل بیٹھیں۔ ، تمام اختلافی امور پر ٹھنڈے دل سے ایک دوسرے کا موقف سنیں اور قوم کے اندر مایوسی انتشار اور خلفشار کو روکنے کے لئے اپنی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے دور اندیشانہ فیصلے کریں اسی میں ملک وقوم کی بہتری اور بھلائی ہے وگرنہ اداروں کے درمیان ٹکراﺅ ملک کو کسی نئے امتحان سے دوچار کرسکتا ہے۔عدلیہ کی اصلاح قانون و آئین کی بالا دستی اور شہریوں کے لئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے بغیر ہمیں ورثے میں ملنے والے کلچر کا خاتمہ ممکن نہیں۔ عوام کی ترقی خوشحالی اور قیام پاکستان کے بنیادی مقاصد کے حصول،24کروڑ عوام کی محرومیوں اور مایوسیوں کا خاتمہ اور جان و مال کا تحفظ آئین و قانون کی بالادستی دور مکمل پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔
جمہوریت کا خواب اور پاکستان کی اشرافیہ
یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا پودا ابھی شجر سایہ دارتناوردرخت نہیں بن سکا ، اسے مکمل پھولدار ور پھلدار بنانے کے لیے اس کی مسلسل نگہداشت کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہر فرد کو زیادہ ذمہ داری سے اپنا کام نمٹانا اور کردار ادا کرنا پڑے گا۔یہ کردار اور فرض ان پر اور بڑھ جاتا ہے جن کا جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ کا دعوی زیادہ بڑا ہے۔ جمہوریت کی پرورش اور نگہداشت کےساتھ ساتھ اسے عوام کے لیے مفید بنانے کی خاطر سیاسی اور جمہوری حوالے سے نئی صف بندی کی ضرورت ہو گی۔اسی طرح اداروں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی کارکنوں کو مضبوط کرنے کے لیے قائدین کو اپنے اختیارات کو جمہوری سانچوں میں ڈھالنا ہو گا۔ پھر جا کر سیاسی قیادت حقیقی معنوں میں طاقتور ہو گی،دریں حالات عسکری ادارے حقیقی معنوںمیں ملکی سلامتی کے مقاصد کے لیے اپنے وقت اور صلاحیتوں کو خالص کر سکیں گے۔ اس عزم اور ارادے کے نتیجے میں نہ شارٹ کٹ کے لیے کسی سازش کو پنپنے کا موقع ملے گا نہ غیر جمہوری طاقتوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ اس مقصد کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ جمہوری حکمرانوں کی ٹیم اشرافیہ کے رنگ ڈھنگ والی ہونے کے بجائے عوامی رابطے کی شناخت رکھنے والی ہو۔ اسی راستے حقیقی جمہوریت کا خواب جمہور کے حق میں شرمندہ تعبیر ہو گا۔ انتخابی شفافیت اپوزیشن کی کسی بھی جماعت سے زیادہ حکومتی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ امر کو سمجھنے کی بات ہے کہ سیاست اور جمہوریت چالاکی، ہوشیاری یا روایتی سیاسی عیاری سے مضبوط نہیں ہوتی جمہوریت کے پودے کو سازگار جمہوری ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلئے اپوزیشن کے مطالبات پر خود حکومت کو آگے آنا پڑتاہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی معروضی تصویر حوصلہ افزا نہیں۔ ایک جمہوری سماج کی شکل سیاسی جماعتیں مکالمہ برداشت اور مشاورت سے ترتیب دیتی ہیں۔ پاکستان میں انتشار کی سب سے بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کا ریاستی استحکام سے لاتعلقی پر مبنی رویہ ہے۔ اقوام متحدہ کے منشور برائے انسانی حقوق میں جمہوری اقدار کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام انجمن سازی کا حق اظہار رائے اور رائے سازی کی آزادی اختیار تک رسائی اور پھر قانون کے مطابق اس کا استعمال طے شدہ مدت کے بعد انتخابات کا مسلسل انعقاد سیاسی جماعتوں اور تنظیموں میں تطہیر کا کام دیتا ہے۔اختیارات کی تقسیم عدلیہ کی آزادی شفافیت اور عوامی عہدیداروں کا احتساب آزاد وخود مختار خصوصیات کا حامل میڈیا جمہوری سماج کی لازمی شرائط ہیں۔ان تمام شرائط کا ایک ایک کر کے جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اور جن کے پاس اقتدار رہا ہے جمہوری سماج کی تشکیل کے لئے ان کی کوششیں ناکافی ہیں۔ان کی کم اہلی دوسری قوتوں کو موقع دیتی یا مجبور کرتی ہے کہ ریاست کے امور کو بنا نگرانی نہ رہنے دیا جائے۔یہ الگ بات کہ اس امر کو بھی موقع پرست جماعتیں جمہوریت اور آمریت کی جنگ بنا کر رائے عامہ کو گمراہ کرتی ہیں۔ جو جماعت پاکستان کے قانون آئین اور اداروں کا احترام نہیں کرے گی ۔وہ جمہوریت میں اپنا مثبت رول کیسے ادا کر سکے گی۔حکومت کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں کے احتجاج کا رخ اداروں کی طرف موڑ دے بلکہ وہ سمجھ بوجھ کے ساتھ ریاست کی حکمت عملی سے عام آدمی کو مطمئن کرتی ہے۔ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ہر روز قوم کو ایک نئے تنازع اور تقسیم کا شکار بنا دیا جاتا ہے۔تجربہ کار اور معاملہ فہم سیاسی قیادت سے امید کی جاتی ہے کہ وہ مکالمے کے لئے موزوں ماحول پیدا کرنے پر توجہ دے گی۔حالات غیر ذمہ دارانہ سیاست کی وجہ سے اس نہج پر جا پہنچے ہیں کہ عام آدمی کا ریاستی نظام سے یقین ہی اٹھتا چلا جا رہا ہے۔جمہوریت کا دفاع اور جمہوری روایات کا تحفظ اس صورت ممکن ہو گا جب ملک میں جمہوری رویے پرورش پائیں گے۔تقاریر اور بے روح بیانات سے پہلے کوئی تبدیلی آئی نہ جمہوری استحکام کی امید پھر سے کی جا سکتی ہے۔
اداریہ
کالم
آئین اور قانون کی بالادستی کے بغیر ترقی ممکن نہیں
- by web desk
- اپریل 13, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 597 Views
- 8 مہینے ago