بدقسمتی کا دور ہے ، انسان نے ایک دوسرے کو سمجھنا چھوڑ دیا ہے ، محبتیں مفاد پرستی میں بدل گئیں ، خونی رشتے وقت کی گرد تلے دبنا شروع ہوگئے ، انسان نے حالات کو بھی سمجھنا چھوڑ دیا ہے ، انسانیت کے معیار سے گر کر لوگوں کو اپنی نظروں میں حقیر جاننا شروع کردیا ۔ آج کا انسان اپنے خول میں بند دوسرے کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں وہ صرف اپنے وجود کو مانتا ہے اور ہر جائز ناجائز ذریعے سے اسے نہ صرف پانے میں لگارہتا ہے بلکہ نمود و نمائش سے اس کی انا کی تسکین ہوتی رہتی ہے ، یہ خام خیالی اس کے گرد ایسا جالا بن دیتی ہے کہ پھر وہ سرکس کے شیر کی طرح اپنی ذات کے پنجرے میں قید ہوکر اپنے آپ کو معتبر خیال کرتا ہے ۔ نہ جانے کیوں آج کل ہر شخص دوسر ے شخص سے بیزار نظر آتا ہے ، فون پر بھی لوگ ایسے بات کرتے ہیں کہ جیسے دو چار جملوں کے بعد اللہ حافظ ضرور کہہ دیاجائے ، دھیرے دھیرے خونی رشتے اکتاہٹ اور ذہنی و قلبی دوریوں کی طرف گامزن ہیں ، نہ جانے کیوں خونی رشتے قربتوں کی بجائے دوریوں میں بدلتے جارہے ہیں ، ہر بندہ اپنے آپ کو معتبر مانتا ہے اور دوسرے کو اہمیت ہی نہیں دیتا اور اگر اہمیت دیتا بھی ہے تو مجبوری سے ۔دلوں میں خونی رشتوں کی کشش باقی نہیں رہی ، اب تو مائن اور دائن کا بے رحم دور ہے ، پیسے کی دوڑ میں سبقت لے جانا مطمع نظر ہے ۔ نہ جانے کیوں ہر شخص ایک دوسرے سے بیزار نظر آتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ ہر طبقہ دوسرے طبقے سے بیزار نظر آتا ہے ، حکومت رعایا سے بیزار ہے اور رعایا حکومت سے ۔ یعنی ہر آدمی دوسرے سے بیزارہے ، اب نئی تھیوری سننے میں آئی ہے کہ اگر چار بھائی ہوں اور پھران کی شادی کے بعد جو اولاد ہوگی وہ کیوں آپس میں ملیں اپنے اپنے دادا کی اولاد سے ملنا اور ان میں رہنا چاہیے حلقہ تعلقات چاروں بھائیوں کی اولاد میں پھیلنا ضروری نہیں ۔ جب کبھی دوسرے دادا کی اولاد سے ملنا پڑے تو وقت نبھادیں تب ہی اس سے آگے نہیں ۔ اس محدود سوچ سے برادری اور خاندان کا تصور کم ہوکر صرف اپنے قریبی رشتے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ، انسان کو انسان سے او ر پھر قریبی رشتوں سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ مال کی محبت سے انسانوں سے رشتوں کا تقدس چھین لیا۔ غرور اور پیسے کی فروانی نے رشتوں کی ڈور کو توڑ ڈالا ۔ اب وقت ایسا آگیا ہے کہ بڑوں کی عزت بھی داو¿ پر لگ چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر عزت چاہتے ہیں تو عزت دیں ورنہ صرف عزت لینا فرض نہیں ہے ،یہ گنبد کی صدا جیسی جو کہے ویسی سنے ۔ مغربی تہذیب نے مشرقی روایات کا جنازہ نکال دیا۔ میں ایک چشم دید واقعہ آپ کو سناتا ہوں ہمارے محلے میں دو سگے بھائی رہتے تھے ان کی اولادیں بھی کالج اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں ۔ کسی بات پر دونوں سگے بھائیوں میں تکرار ہوگئی ۔ بڑے بھائی کا قددرمیانہ تھاجبکہ چھوٹا بھائی چھ فٹ کا رعب انسان تھا۔ غصے میں بڑے بھائی نے جن کا قد درمیانہ تھا انہوں نے چاہا کہ چھوٹے بھائی کے سر کے بالوں کو پکڑ اس کے دور چار تھپڑیں لگائی جائیں جب ان کا چھوٹے بھائی کے سر تک نہ پہنچا تو وہ فوراً جھک گئے اور کہنے لگے بھائی اب آپ کیلئے آسانی ہوگی ، یہ کہنا تھا کہ بڑے بھائی فرط جذبات سے آبدیدہ ہوگئے اور چھوٹے بھائی کو گلے لگاکر پیار کرنے لگے۔ دونوں بھائیوں کی اولادیں بھی تھیں لیکن ان میں یہ سوچ نہیں کہ ہم الگ الگ پارٹی ہیں ۔ اب زمانہ بدل چکا ہے ، رشتے سمیٹے جارہے ہیں ، جیسے میں نے پہلے تحریر کیا ایک دادا کی اولاد نے اگر اپنے اپنے مالی مفادات پیش نظر رکھ کر ہی ملنا ہے تو پھر برادری کیا ہوئی ، خاندانی تعلق کیا رہ گیا ، یہ سوچ محدود کردینے والی بات ہے ، مفاد پرستی کی انتہائی قابل نفرت سوچ اور رویہ ایسی سوچ کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اکثر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ چاپلوسی سے مفاد حاصل کرنے کی فلاسفی سب کو سمجھ آجاتی ہے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ اعلیٰ کردار اور اعلیٰ احساس کی عدم موجودگی ایسی گھٹیا سوچ کی آبیاری کررہی ہے ، خونی رشتے بے توقیر ہوچکے ہیں ، بڑے چھوٹے کا لحاظ جو کہ خاندانی روایات کا حصہ ہے ، اب کمزور رویے کی عکاس ہے ، ہم بار بار کھانا کھلانے ، چاپلوسی کی باتیں کرنے اور قصیدے پڑھنے کی گھٹیا عادت سے سمجھتے ہیں کہ میری بڑی عزت ہے اور اہمیت ہے لیکن ہر تیسرے دن دعوتیں کرنے اور ایک دوسرے کے وقتی طور پر قصیدے پڑھنے سے پاپولر نہیں ہوسکتے، رشتے جو اللہ نے بنا دیئے ہیں نہ وہ ٹوٹ سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوشش کے باوجود توڑا جاسکتا ہے ، بھائیوں کی اولاد میں باہمی احترام محبت اور بے لوث تعلق ہو تو وہ ایک باوقار برادری بن کر نمایاں ہوتی ہے ۔ ایک داد ا کی اولاد ہونے سے عزت نہیں بنتی بلکہ سبھی بھائیوں کی اولادوں کا ایک دوسرے کےساتھ جڑے رہنے ہی سے عزت میں اضافے کا ذریعہ ہوتا ہے ۔ طاقت یا پیسے اور دولت کی نمائش سے رشتے دائمی تعلق میں پروئے نہیں جاسکتے بلکہ اس کیلئے باہمی عزت و تکریم کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ آجکل خلوص مہر وفا اور محبت کے الفاظ معنویت سے خالی ہوتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں ، دولت کمانے کی دوڑ اور نمود و نمائش کی بیماری نے انسانیت اور محبت و مروت کے بارے میں سوچنے کی حس ختم کردی ہے ۔ جذبوں سے عاری انسان رشتے توڑتے توڑتے خود بھی ٹوٹ چکا ہے ۔ رشتوں کے تقدس کی سوچ کبھی کی لٹ پھٹ چکی ۔ آج کا انسان بڑے گھر میں رہتا ہے اور بڑی گاڑی میں سفر کرتا ہے لیکن انسانوں کے میلے میں تنہا ہے ، اصل میں وہ کسی کا نہیں اور کوئی اس کا نہیں ،ماڈرن ہوتے ہوئے انسانیت سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔
کالم
احساس کی عدم موجودگی
- by Daily Pakistan
- مارچ 18, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 493 Views
- 2 سال ago