کالم

امریکی دانش و بینش کی خود سوزی

امریکہ کی طرف سے اسرائیلی ریاست کے انتہاپسندوں کی مسلسل حمایت ، معاونت اور فلسطینیوں کی نسلی کشی میں شرکت کو اب خود امریکی عامتہ الناس کی طرف سے نہ صرف سخت ناپسند کیا جا رہا ہے ،بلکہ جگہ جگہ اس ناپسندیدگی کا بلند آہنگ اظہار بھی ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے امریکہ میں ہونے والے بڑے بڑے عوامی مظاہروں نے امریکی رائے عامہ کے جذبات کی صحیح عکاسی کی تو ہے ، لیکن ساتھ ہی ایک بڑا سوال بھی کھڑا کر دیا ہے ،اور وہ یہ کہ کسی اجتماعی مسلے پر امریکی رائے عامہ کا موقف اور جذبات امریکی انتظامیہ کے طرز عمل اور فیصلوں پر اثر انداز کیوں نہیں ہوتے؟ امریکی انتظامیہ کے نمائیندے پریس اور پبلک کے ہاتھوں طنز و تعریض کا نشانہ بننے کے باوجود اسرائیل کے صیہونی انتہاپسندوں کے خلاف اشارتا بھی کوئی بات کرنے کی جرات کیوں نہیں کرتے ۔ضعیف امریکی صدر جو بائیڈن کو دیکھ کر شک گزرتا ہے کہ شاید ان کی کمر پر کسی بااثر صیہونی نے پستول کی نوک ٹکا رکھی ہو ؟ ایک گمان یہ بھی ہے کہ ؛ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اسرائیلی انتہا پسندوں کی طرف سے نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی کی مسلسل اور مکمل حمایت کی وجہ سے امریکہ کے بااثر مگر مخفی و مستور حلقوں نے جو بائیڈن کو زمرہ بھوت پریت میں شامل کر رکھا ہو؟ امریکہ کی شہرت کو اچھی طرح سے داغدار کرنے اور ان مصدقہ رپورٹس کے بعد کہ ان کے دوبارہ انتخاب کے امکانات بالکل معدوم ہو چکے ہیں ، جو بائیڈن تنہائی میں بیٹھ کر دردناک گیت گنگناتے رہتے ہیں۔اگرچہ امریکی عامتہ الناس کے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔لیکن امریکی انتظامیہ اپنی گراں گوشی کے باعث احتجاجی مظاہروں کے نعرے سننے سے قاصر ہے ۔کچھ کچھ بے حیا بھی ہے ،کیونکہ کئی امریکی اہلکاروں اور منصب داروں کو صحافیوں اور عام لوگوں نے ان کے منہ پر کثرت سے مطعون کیا ہے ،لیکن طعن کی نفسیات یہ ہے کہ اس کا اثر صرف حساس اور نیک طینت لوگوں پر ہوتا ہے ، بےحس اور قاتل صفات لوگوں پر کوئی طعن یا کوئی لعنت اثر انداز نہیں ہوتی ۔سرد جنگ کے زمانے میں روس کے خلاف امریکہ کا سب سے موثر اور سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا حربہ”انسانی حقوق کی خلاف ورزی”کا الزام ہوا کرتا تھا۔امریکہ خود کو ایک آزاد اور انسانی حقوق کا پاسدار ملک قرار دیا کرتا تھا جبکہ روس اور بعد ازاں چین کو مطعون کرنے کےلئے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزام کو ایک سیاسی اور تزویراتی حربے کے طور استعمال کیا جاتا رہا ہے۔امریکہ اب بھی کوشش کرتا رہتا ہے ، لیکن اب امریکہ کا یہ پٹا ہوا اتہام موثر نہیں رہا۔ غزہ میں برپا ہونے والے انسانی المیے کی حمایت اور اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی کو جائز سمجھنے کے بعد امریکی انتظامیہ ایک طرف دنیا کو ، تو دوسری طرف خود امریکی رائے عامہ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی ۔ویسے بھی ایک زائد از عمر صدر کی بےحسی نے امریکی چہرے کو کسی باعزت رونمائی کے قابل نہیں چھوڑا۔ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر غیر انسانی مظالم کی مسلسل حمایت اور اعانت پر امریکی رائے عامہ کے احتجاج کو تاریخ کے صفحات پر آگ کے شعلوں میں لپیٹ کر رقم کرنے کےلئے امریکی فضائیہ کے ایک حاضر سروس پچیس سالہ نوجوان ائرمین نے اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے خود پر پٹرول چھڑک کر خود سوزی کر لی ۔ اسے میں ایک نوجوان امریکی کی نہیں ، بلکہ امریکی دانش و بینش کی خودسوزی خیال کرتا ہوں ۔امریکی ائر فورس کے اس اہلکار نے خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی ویڈیو کو انٹرنیٹ پر براہ راست نشر بھی کیا ، اس لائیو ویڈیو میں اس اہلکار نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ وہ امریکی ایئرفورس کا حاضر سروس اہلکار ہے۔ اپنے آپ کو آگ لگانے سے پہلے اس اہلکار نے بتایا کہ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے عمل میں مزید شریک نہیں ہو سکتا، یہ کہتے ہوئے ، جب کہ آگ نے اس کے پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور وہ تڑپتے تڑپتے گر رہا تھا ، تو اس دوران لائیو ویڈیو میں "فلسطین کو آزاد کرو "کے نعرے لگاتے ہوئے وہ غیرت مند اور انسان دوست اہلکار بے ہوش ہوگیا۔ اس المناک واقعے پر موقع پر موجود امریکی خفیہ ایجنسی کے غیر ضروری طور پر چوکس اہلکاروں نے آگ کو بجھانے کی غیر مرتب اور منتشر کوشش کی ،اور اس کوشش کے دوران ایک سیکیورٹی اہلکار نے جلتے ہوئے آدمی کو مسلسل اپنے پستول کے نشانے پر رکھا ہوا تھا ۔بہرحال ایجنسی کے اہلکاروں نے آگ سے جلتے اہلکار کو ہسپتال پہنچا دیا۔بعدازاں خود سوزی کرنے والا اور خود کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے عمل سے علحدہ کرنے والا باضمیر امریکی جان کی بازی ہار گیا۔ اگرچہ اس پچیس سالہ نوجوان امریکی نے امریکہ کے اجتماعی ضمیر کو بیدار کرنے کےلئے ایک انتہائی اذیت ناک راستہ اختیار کیا ، لیکن اس افسوسناک اور اذیت ناک واقعے نے دنیا کو یہ پیغام ضرور دیا ہے کہ ننھے بچوں ، نہتے مرد و خواتین اور ہسپتالوں میں زیر علاج مریضوں کے قتل عام میں انسان دوست اور مہذب امریکی شہری ، بے حس اور جفا جو امریکی انتظامیہ کے ساتھ نہیں ہیں ۔ اب یہ حقیقت راز نہیں رہی رہی کہ ؛امریکہ جنگوں سے کماتا ہے ،وہ تنازعات کا سوداگر ہے ۔اسے اسرائیل میں پرامن اور تعلیم و تجارت سے محبت کرنے والے یہودیوں کی بجائے نیم پاگل اور وحشی صیہونیوں کی حکومت درکار اور پسند ہے ۔ امریکہ میں فلسطینیوں پراسرائیلی حملوں کیخلاف مظاہروں میں یہودی بھی کثیر تعداد میں شریک رہے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ دنیا بھر کے انسانیت دوست شہری اسرائیلی غارت گری ،امریکی معاونت اور اسلحہ فراہمی سے بے زار اور متنفر ہیں ، تو غلط نہ ہو گا۔امید کی جانی چاہیئے کہ امریکی ائر فورس کے پچیس سالہ ائرمین کی واشنگٹن ڈی سی میں موجود اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے خودسوزی اورہلاکت امریکی انتظامیہ کے دماغوں پر جمی بے حسی اور پاگل پن کو ختم کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔ اس وقت دنیا بھر کے انسان دوست شہریوں کا اجتماعی فیصلہ یہی نظر آ رہا ہے کہ؛ اسرائیل کو صیہونیوں اور امریکہ کو جنونیوں سے بہر صورت نجات حاصل کرنی ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے