کالم

” اندھا بانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنیاں نوں”

a r tariq

ہمارے ہاں ادبی تنظیموں کی بھرمار ہوئی پڑی ہے۔جدھر دیکھو،تنظیمات ہی تنظیمات نظر آرہی ہیں۔جس کا بھی،جب بھی دل چاہتا ہے ایک ادبی تنظیم بنا لیتا ہے اور خود کو صحافی کہتا اور لکھتا ہے۔اگر یہ صحافی ہیں تو برسوں کی صحافیانہ ریاضت کرنے یا پروفیشنل ورکنگ کرنے والے کون ہیں۔ ادبی و صحافتی تنظیم بنا کر پھر ادب و صحافت کی آڑ لے کر ایسے ایسے گل کھلاتا ہے کہ خدا پناہ۔اپنے مال بٹور دھندے کو یوں دوام دینے کا یہ طریقہ یا کھیل اچھا ہے۔ایسی ادبی وصحافتی تنظیمیں ایک کھیل ہی ہوتی ہیں اور دوسروں کے دل و جذبات اور احساسات سے کھیلتے ہوئے خوب پیسا بٹورتی ہیں۔اس بہتی گنگا میں جہاں اچھے اچھوں نے ہاتھ دھوئے،وہاں بھلے مانس نظر آنے والے بھی پیچھے نہیں رہے۔اس ادبی تنظیم کی آڑ لے کر یہ جعلی صحافی پبلشر بھی بن گئے ہیں۔چند پبلشر نما صحافی حضرات نے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا ہے ۔ اپنے کتاب چھاپ دھندے کو لے کر،موقع غنیمت جانا اور دوسروں کی پرموشن کے نام پر خوب مال بٹورا۔ہم ہیں کہ ان بہروپیوں کے ہاتھوں صحافت حال و بے حال دیکھتے،کوئی قاعدہ کلیہ نہ میعار نہ وقار بس بھیڑ چال کا فائدہ اٹھائے ایسی”دبنگ“انٹری ماری کہ ناشر نما کرتا دھرتا بن گئے اور ادبی تنظیمات ہی کھڑی کرڈالیں اور اس کا پھر فائدہ کچھ یوں اٹھایا کہ کتاب چھاپ ، کتاب کے نام پر فراڈ،ایوارڈ پروگرام اور رائٹرز کوانعامات جھانسا اوردیگر ترغیبات سے مال ومال اور جھوٹے قد و کاٹھ سے ادبی حیثیت سے بھی ”باکمال“ بنتے چلے گئے۔پھرصحافت کا حال وہ کردیا کہ صحافت کی حالت پر رونا آتا ہے کہ یہ کیسی صحافت ہے کہ جہاں فراڈیوں اور بہروپیوں کاایک جہاں بسا ہوا ہے اور حقیقی اہل و علم دانش افراد کا یکسر فقدان نظر آتاہے گوکہ ان میں سے کچھ نے تو اپنے شخصی دفاع کےلئے ہم خیال لکھاری بھی میدان میں اتار رکھے ہیں۔خود تو سامنے آتے نہیں،ایسے افراد کے ذریعے سے کام لے رہے ہیں۔کتاب فراڈ جیسی انسانیت کا فقدان گیم سیریزکی یکسر ناکامی کے بعد سے بے یارومددگار سے ہوئے پڑے ہیں۔ادھر ادھر کی مسند لپیٹ رہے ہیں اور شرم سے پانی ہوئے جاتے ہیں مگر اعتراف نہیں کرتے اور ترک نہیں کرتے۔افسوس صحافتی ادبی پلیٹ فارم ”مہان“ کرتا دھرتا ٹھگوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں اور بدقسمتی سے لکھاری ان کے رحم و کرم پر ہیں۔یہ تو جو ہورہا،سو ہوہی رہاہے جس پر توجہ کی اشد ضرورت ہے کہ صحافت کا گرتا مورال بلند ہو،مگر ان خود ساختہ تنظیمات کے خود ساختہ کرتا دھرتا¶ں کی طرف سے رچایا گیا ایوارڈ ، شیلڈ ، اسناد ڈرامہ اس سے بھی زیادہ بھیانک اثرات لیے ہوئے ہیں اور ایک ”کمال“کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچا ہوا ”باکمال“ ڈرامہ بنا ہوا ہے اور اپنی اس حالت و ذلالت پر مسلسل شرمندہ و تارتار ہے اور حلقہ یاراں میں اب تو ایک ایوارڈکھیڈ تماشہ بنا ہواہے اگر یہ کہاجائے کہ” اندھا بانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنیاں نوں” جیسی شہرت کا حامل بن چکا ہے تو بے جا نہ ہوگا،اپنی ساکھ ومعیار دونوں اڑا چکا ہے۔بیشتر بہترین لکھاریوں کے ہوتے ہوئے محض سلیکٹڈ اور اک ایوارڈاورکا نعرہ مارتے افراد تک مختص ہوکر رہ گیا ہے جو اپنی صلاحیت اور بل بوتے پر ایوارڈ حاصل نہیں کرتے بلکہ ان کے تعلقات کا سکہ چلتا ہے۔اب تو ایسے لوگ اپنی دوست احباب سرجوڑ کانفرنس سے بھی مطلوبہ اہداف حاصل کرنے سے یکسرناکام ہیں۔بات اب احتیاط کے طور پر محض صرف ساتھی اور گاہک افراد تک ہی صرف لنک بھیجنے تک آن پہنچی ہے۔لکھاریوں کو کتابیں چھاپنے،کتاب فراڈ انداز اپنانے اور رائٹرز کو انعام جھانسے دینے کے نام پراپنے لوٹنے والے دھندے میں اب نمایاں کمی پاتے ہیں۔اب اس کھیل میں وہ پہلی سی باغ وبہار اور مزہ نہ پاکر حیران و پریشان سے ہوئے پڑے ہیں۔میرے پبلک آویرینس میسج کے بعد اب مختلف کتابوں کے معزز مصنف بھی ان سے اپنی کتابیں چھپوانے کے حوالے سے چوکنا ہو چکے ہیں اورہچکچاہٹ کا اظہار کرتے ہیں۔خوش آئند بات یہ ہے کہ اب مصنف حضرات ادارے کے چنا¶ میں معیار اور میرٹ کو دیکھنے لگے ہیں۔بہت سوں نے کہا کہ ہم آپ کے بے حد شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہمیں درست راستہ دکھادیا۔کتاب فراڈ والوں کی اصل حقیقت اور کتاب پبلش کا اصل معیار کیا ہونا چاہیے بتا دیا۔چند دوستوں کو میں نے کچھ معیاری اداروں کے اچھے افراد تک رسائی دی کہ اپنی کتابیں بھی چھپوا¶،پیسہ بھی بچا¶اور میعار بھی پا¶۔اس پر اب بہت سے مصنف انتہائی خوش ہیں۔یہ سفر جاری و ساری ہے اور اس مکروہ فراڈ کھیل کو پایہ انجام تک پہنچا کر چھوڑیں گے۔اس موقع کی مناسبت سے ایوارڈ ایجاد تقریبات کے حقائق کے بارے بھی بتاتا چلوں کہ یہ ایوارڈ فنکشن کہاں سے شروع ہوئے۔حقائق یہ ہیں کہ کچھ دوستوں میں دوران گفتگو یہ بات ہوچلی کہ ”یار وہ وہ ایوارڈ یافتہ صحافی اور ہم محروم ہیں۔آﺅ کچھ ایسا کریں، اک تنظیم بنائیں اور تم مجھے ایوارڈ دو میں تمہیں دوں، یوں ایوارڈیافتہ لکھاری بن جائیں“۔بس پھر شہرت اور پیسے کے لالچی اس میں لگ گئے۔نہ کام اور نہ نام،بس منی بدنام مگر یہ بدنامی کو نیک نامی سمجھتے ہیں۔یہ کھمبیوں کی طرح اگتی ادبی تنظیمیں اور ایوارڈ حقائق صورتحال ہے۔اب کوئی مانے یا نہ مانے مگر اصل بات یہی ہے۔ان کے کردار و شخصیات کچھ بھی تو حقیقی ایوارڈ لائق نہیں۔ان کو ایوارڈ ملنا تو ایوارڈ کی توہین ہے۔جتنے ایوارڈ ان بے ہنر اور بے توقیر لوگوں کو ملتے ہیں۔میں شرم اور حیرت سے سوچتا ہوں کہ کچھ شرم ورم ان میں بھی ہے کہ نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے