کالم

انڈیا میں مخدوش مذہبی آزادی، امریکہ کی سرزنش

مذہبی آزادی بھارت میں ہمیشہ سوالیہ نشان رہی ہے۔مودی دور حکومت میں مذہبی نفرت انگیزی کا گراف بہت بلند ہو چکا ہے۔اب تک کئی ہولناک واقعات میڈیا میں رپورٹ بھی ہوئے ہیں اور کتنے ایسے واقعات ہوئے ہوں گے جو میڈیا سے اوجھل رہے یا دبا لئے گئے ہوں گے ۔ مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے متعدد امریکی ادارے گزشتہ کئی سالوں سے انڈیاکو اس فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں، تاہم امریکی انتظامیہ عالمی سیاسی مفادات کے پیش نظر اس سے چشم پوشی کرتی رہی۔خوش آئند امر یہ ہے کہ بالآخر اس بار واشنگٹن نے اپنی رپورٹ میں بھارت پر بھی تنقیدکر ہی ڈالی ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تنقید پیچھے بھی بھارت سے کوئی بات منوانا ہی ہو گی،تاہم جو بھی ہے ،امریکہ کی تنقید بھارت کی پالیسیوں پر دھچکا ہی ہے۔ امریکہ نے مذہبی آزادی سے متعلق بدھ26جون کے روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں قریبی اتحادی بھارت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تعصب پر مبنی اقدامات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں امریکی وزیر خارجہ نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر بڑھتی جا رہی ہیں۔ اقلیتوں کے مکانات اور ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔امریکی وزارت خارجہ نے بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ برس پورے سال کے دوران سینیئر امریکی حکام اپنے بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ مذہبی آزادی کے مسائل پر تشویش کا اظہارکرتے رہے۔ہم، بھارت میں تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین، اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر، ان کے گھروں اور اقلیتی مذہبی برادریوں کی عبادت گاہوں کے مسمار کرنے کے واقعات میں تشویشناک اضافہ دیکھتے رہے ہیں۔بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی سفیر رشاد حسین نے اس حوالے سے بھارتی پولیس کی کارروائیوں پر بھی شدید تنقید کی۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں، ”مسیحی برادریوں نے اطلاع دی کہ مقامی پولیس نے ایسے ہجوم کو پکڑنے کے بجائے ان کی مدد کی، جو تبدیلی مذہب کے الزام کے تحت ان کی عبادت میں خلل ڈالنے پہنچی، یا پھر جب ہجوم نے ان پر حملہ کیا، تو حملہ آوروں کی گرفتاری کے بجائے متاثرین کو ہی تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ناقد سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں امریکہ کی جانب سے بھارت پر اس طرح کی تنقید شاذ و نادر بات ہے، کیونکہ چین کا مقابلہ کرنے کےلئے نئی دہلی کی اسے ضرورت ہے۔اس تازہ امریکی رپورٹ میں اقلیتوں کےساتھ ہونے والے ایسے درجنوں واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں انہیں خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے ایک وہ واقعہ بھی رپورٹ ہوا ہے جس میں محکمہ ریلوے سے وابستہ ایک سکیورٹی اہلکار نے ٹرین میں تین بے گناہ مسلم مسافروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ یہ واقعہ ممبئی کے قریب پیش آیا۔ اسی طرح مسلمانوں کےخلاف حملوں کی متعدد مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ کس طرح مسلمان پر اس الزام کے تحت بھی جان لیوا حملے کیے گئے کہ وہ گائے کے گوشت کی تجارت کرنے یا ذبح کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ایسے واقعات بارے بھارتی مسلمان تنظیمیں بی جے پی کی حکومت پر اسی طرح کے الزامات لگاتی رہی ہیں اور خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ تفریق ہونے کی بات کہتی رہی ہیں۔ انسان حقوق کی تنظیمیں مسلمانوں کےخلاف امتیازی سلوک کی مثال کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے، شہریت سے متعلق نئے قانون اور غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کے نام پر مسلمانوں کے مکانات اور ان کی عمارتیں مسمار کرنے جیسے واقعات کا حوالہ دیتی ہیں۔ رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ نے منی پور میں ہونےوالے تشدد کا بھی حوالہ دیا ہے۔ یہ نسلی تشدد گزشتہ برس مئی میں اقلیتی، بیشتر مسیحیوں، کوکی اور اکثریتی طبقہ میتی، بیشتر ہندو، گروہوں کے درمیان شروع ہوا تھا۔منی پور میں بہت سی عیسائی عبادت گاہوں کو پوری طرح سے تباہ کر دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں حال ہی میں تیسری بار جیتنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ امریکہ نے رپورٹ میں تو بھارت پر تنقید کر ڈالی ہے لیکن اس بات کی توقع نہ رکھی جائے کہ محکمہ خارجہ رواں برس کے آخر میں جو مذہبی آزادی کے حوالے سے سالانہ بلیک لسٹ کا مسودہ تیار کرے گا ، اس میں بھارت کے خلاف کارروائی کا کہا جائے گا۔ رواں سال اپریل میں امریکی محکمہ خارجہ کے انسانی حقوق کے سالانہ جائزے میں بھی کہا گیا تھاکہ گزشتہ سال بھارت کی ریاست منی پور میں بڑے پیمانے پر بدسلوکی کے واقعات ہوئے۔ منی پور میں مئی اور نومبر کے درمیان 60 ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے تھے۔رپورٹرز ودآٹ بارڈرز نے 2023میں اپنے پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کو 180ممالک میں سے 161 نمبر پر رکھا تھا، جو بھارت کی اب تک کی سب سے کم پوزیشن ہے۔ انسانی حقوق کے معتبرگروپوں کا الزام ہے کہ نریندر مودی کے دور میں آب و ہوا خراب ہوئی ہے۔ وہ نفرت انگیز تقاریر میں اضافے، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے، شہریت کا قانون جسے اقوام متحدہ بنیادی طور پر امتیازی قرار دیتا ہے اور غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کے نام پر مسلمانوں کی املاک کی مسماری کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ امریکی رپورٹ حالیہ برسوں میں پیش آنے والے اسی نوعیت کے واقعات کی عکاسی کرتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri