شنگھائی تعاون تنظیم(یس سی او)کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے بھارتی وزیر خارجہ کی 9 سال بعد پاکستان آمد روس تاجکستان کرغزستان قازقستان بیلاروس کے وزرائے اعظم و دیگر عالمی رہنما بھی اسلام آباد پہنچ گئے تنظیم کے رکن ممالک روس بیلاروس قازقستان کرغزستان تاجکستان اور ازبکستان کے وزرائے اعظم کے علاوہ ایران کے اول نائب صدر اور بھارت کے وزیر خارجہ اپنے ممالک کی نمائندگی کررہے ہیں چین کے وزیراعظم لی چیانگ ایک روز قبل ہی پہنچ گئے تھے جبکہ منگولیا کے وزیراعظم مبصر ریاست کے طور پر اور ترکمانستان کے وزرا کی کابینہ کے نائب چیئرمین اور وزیر خارجہ بھی خصوصی مہمان کی حیثیت میں شرکت کررہے ہیں وطن عزیز کے لئے جغرافیائی اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی شنگھائی تعاون تنظیم( ایس سی او) کے سربراہان مملکت کے اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل ہونا اعزاز کی بات ہے علاقائی سیاسی اقتصادی اور دفاعی تنظیم ایس سی او کو 15 جون 2001 میں چین اور روس نے قائم کیا ابتدا میں چین روس قازقستان کرغستان ازبکستان اور تاجکستان اس کے ممبر ملک تھے پاکستان اور بھارت نے جون 2017 ایران نے 2023 اور بیلاروس کے 2024 میں شمولیت سے تنظیم کے مستقل ارکان کی تعداد 10 ہوگئی علاوہ ازیں 3 ممالک مبصر اور 14 ممالک ڈائیلاگ پارٹنرز کی حیثیت سے تنظیم سے منسلک ہیں تنظیم کے 4 اہداف میں رکن ممالک کے درمیان اچھی ہمسائیگی تجارت سائنس اور ٹیکنالوجی تعلیم توانائی سیاحت کے شعبوں میں تعاون خطے میں امن و امان اور سلامتی کو مشترکہ طور پر یقینی بنانا ہے ایک جانب تو اس تنظیم کے رکن ممالک عالمی سیاست تجارتی راستوں اور قدرتی وسائل کی فراوانی کے لحاظ سے دنیا کے اہم ترین خطے میں شامل ہیں دوسری جانب اس کے ممبران میں جہاں پاکستان اور بھارت جیسی علاقائی قوتیں شامل ہیں وہاں روس اور چین جیسی عالمی طاقتیں اس تنظیم کے بانی ممبران میں سے ہیں اس تنظیم کے دیگر ممبران اگر فوجی لحاظ سے بہت زیادہ طاقت و ر نہیں بھی ہیں تو وہ قدرتی وسائل بشمول تیل گیس اور معدنیات سے مالا مال ہیں اسی لیے اس تنظیم کی عالمی اہمیت کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کچھ لوگ اسے آنے والے وقت میں امریکہ اور مغرب کے خلاف عالمی اتحاد کی شکل میں دیکھتے ہیں اسلام آباد میں ہونے والا شنگھائی تعاون تنظیم( ایس سی او) کا سربراہی اجلاس جہاں عالمی رہنماں کو علاقائی اور عالمی چیلنجوں پر بات چیت کرنے اور رکن ممالک کے درمیان تنازعات کے باوجود مشترکہ اہداف اور مقاصد کے بارے میں کچھ سمجھنے کا موقع فراہم کرے گا وہیں پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال میں یہ ہمارے لئے بھی تازہ ہوا کا جھونکا ہے اسلام آباد کانفرنس میں کثیر الجہتی تعاون کے امکانات پر بات چیت کی توقع ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ سائیڈ لائن ملاقاتوں میں کون سے امور طے پاتے ہیں ماسکو اور بیجنگ دونوں نہ صرف جغرافیائی سیاست بلکہ جیو اکنامکس میں بھی امریکی تسلط کو چیلنج کر رہے ہیں ایس سی او کی عملی طور پر قیادت چین کر رہا ہے اور وہ اسی نوعیت کے دیگر تنظیموں کے قیام کو عمل میں لا کر عالمی سیاسی نظام میں کسی ایک کی بالادستی کے تصور کو ماضی کی بس ایک یادگار بنا دینا چاہتا ہے دوسری عالمی جنگ کے بعد نو آبادیاتی نظام زمین بوس ہو گیا اور دنیا نے دو مختلف معیشتوں کے باہمی تصادم کی سیاست کا سامنا کیا ہے اب پھر دوبارہ دنیا معاشی حالات کے ایک نئے دور نئی عالمی سیاست کے سورج کو طلوع ہوتا دیکھ رہی ہے اور اس نئی صبح میں سنگھائی تعاون تنظیم کا کلیدی کردار ہے ایس سی او سے منسلک ممالک نے اپنے مالیاتی نظام کو مضبوط بنانے کے لئے بزنس بینک بنایا ہے اگر خطہ کے اقتصادی معاملات کے حل میں یہ فعال اور موثر کردار ادا کرتا ہے تو اس سے امریکہ اور یورپ کے اثرات کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے خصوصا ڈالر کے مقابلے میں ایک نئی کرنسی کی تشکیل دنیا کے معاشی محاذ پر بڑی ہلچل کا باعث بن جائے گی چین کو امریکہ کے مقابلے میں اس لئے بھی ترجیح مل رہی ہے کہ وہ معاشی معاملات میں مضبوطی کی بات کرتا اور دو طرفہ تعلقات کا خواہاں ہوتا ہے جبکہ امریکہ بارے یہ تاثر عام ہے کہ واشنگٹن ہمیشہ معاشی معاملات کو اپنے سیاسی مفادات سے منسلک اور دو طرفہ تعلقات میں بالادستی قائم کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے ایس سی او کے قیام کا بنیادی مقصد ممبران کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لئے مل کر اقدامات کرنا ہے تاکہ ان کو تزویراتی خود مختاری حاصل ہوسکے اور خطے سے باہر کی طاقتوں کے عمل دخل کو قصہ پارینہ بنا دیا جائے اور باہمی تعاون سے ہی اس خطے کی سیکورٹی کے مسائل کو حل کیا جائے توقع ہے کہ سلامتی اور استحکام سے متعلق مسائل توانائی اور اقتصادی تعاون جیسے امور شنگھائی تعاون تنظیم کے 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں زیر بحث رہیں گے ایس سی او کانفرنس بھارت سمیت دیگر ممالک میں بھی منعقد ہوچکی ہیں لیکن پاکستان میں اس کے انعقاد پر بعض عالمی طاقتیں پریشان ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان کا بڑھتا ہوا معاشی کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے اگر چین پاکستان کے ساتھ بھرپور عزم کے ساتھ کھڑا رہے گا تو پھر پاکستان کی علاقائی اہمیت وحیثیت سے ان کے مفادات کو زد پہنچے گی یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے عمل اور دیگر طریقوں سے اسے مسلسل عدم استحکام کا شکار بنانے کی سازشیں جاری ہیں ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے منظم واقعات کی ڈوریں باہر سے ہلائی جا رہی ہیں ان واقعات کا مقصدر پاکستان کو ترقی کے راستے سے ہٹا کر استحکام کی منزل سے دور کرنے کے سوا کچھ نہیں پاکستان کے لئے ایس سی او وسطی ایشیا کے دروازے کی حیثیت رکھتی ہے جہاں کے ممالک ہمارے لئے ایک بڑی مارکیٹ اور ہمارے معاشی مسائل کا ایک پائیدار حل ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ معاشی ترقی کا واحد ذریعہ تجارت اور خاص طور پر برآمدات میں اضافہ ہی ہے پاکستان کو اپنی زرعی اجناس کے لیے وسطی ایشیا میں ایک بڑی منڈی مل سکتی ہے اسی طرح وسط ایشیائی ریاستوں کو تجارت کے لئے سمندروں تک آسان اور سستی رسائی پاکستان کے ذریعے مل سکتی ہے لیکن یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم پہلے اپنے گھر کو درست کریں۔