کالم

ایس سی او کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا

ایس سی او سمٹ کا اسلام آباد میں انعقاد بلاشبہ پاکستان کی علاقائی اور عالمی سطح پر مسلمہ حیثیت تسلیم کیے جانے کا ثبوت ہے ، ایس سی او سمٹ کا انعقاد پاکستان میں ایسے وقت میں ہورہا ہے جب طے شدہ منصوبے کے تحت ہمارے بدخواہ ملک میں سیاسی ، مذہبی اور لسانی دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں ، مثلاً کراچی میں چینی باشندوں پر ہونےوالا خودکش حملہ، بلوچستان میں بےگناہ اور نہتے مزدوروں کا قتل ،پختون جرگہ کا انعقاد اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 15اکتوبر کو احتجاج کرنے کا اعلان کسی طور پر نظر انداز کرنے کے قابل نہیں، پاکستان مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت درپیش چیلجنز کی سنگینی سے نہ صرف پوری طرح آگاہ ہے بلکہ پورے عزم وحوصلہ کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام تر مشکلات و مسائل کے باوجود ایس سی او سمٹ کا اسلام آباد میں انعقاد ہورہا ہے ، تاریخی طور پر ایس سی او کا قیام 2001 میں عمل میں آیا، اہم بات یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم دنیا کی 40 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتی ہے ، پاکستان 2005 میں شنگھائی تعاون تنظیم میں بطور مبصر ملک کے طور پر شامل ہوا، 2010 میں پاکستان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کےلئے باضابطہ درخواست دی گی جس پر 2015 میں باضابطہ طور پر کاروائی شروع کردی گی ، یوں پاکستان اور بھارت کو 2017میں شنگھائی تعاون تنظیم کی باضابطہ طور پر رکنیت دے دی گی ، آج شنگھائی تعاون تنظیم کا دائرہ کار ہر گزرتے دن کے ساتھ نہ صرف وسیع ہورہا ہے بلکہ اس بتدریج اس کے رکن ممالک کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ، مبصرین کا خیال ہے کہ اگر ایس سی او کی روح کے مطابق اس پر عمل کیا جائے تو علاقائی ممالک نہ صرف اپنے تنازعات پر قابو پاسکتے ہیں بلکہ ایشیا سے غربت ، پسماندگی اور جہالت کا خاتمہ بھی ممکن ہے ، ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ بھارت سمیت خطے کے سب ہی ممالک باہمی تعاون کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں، نئی دہلی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ خطے میں خود کو بالادست ثابت کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ،حالیہ دنوں میں بنگہ دیش میں ہونےوالے واقعات اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کررہے کہ بھارتی پالیسی کے خلاف علاقائی ممالک میں تیز ی سے ردعمل سامنے آرہا ہے ، حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ دراصل نئی دہلی کے لیے واضح پیغام ہے کہ اس کی حکمت عملی زیادہ دیر نہیں چلنے والی ، بھارت بارے ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ایجنڈے کو فروغ دے رہا ہے ، مثلا اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا آج روس اور چین ایک طرف ہیں تو امریکہ اور اس کے ہم خیال ممالک دوسرے جانب، روس اور یوکرین کی جنگ نے مغربی ممالک کی جنوبی ایشا بارے پالیسی کو پوری طرح نمایاں کردیا ، اس پس منظر میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ روس میدان جنگ میں صرف یوکرین نہیں بلکہ مغربی ممالک کا مقابلہ کررہا ہے ، غزہ میں حماس اور اسرائیل کی جنگ عالمی سیاست پر اثرات مرتب کررہی ہے ، اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم بدترین شکل میں سامنے آچکے ، نیتن یاہو غزہ کو تباہ وبرباد کرنے کے بعد اب لبنان اور شام کی جانب بڑھ چکا ہے ، امریکہ اور مغربی ممالک جس طرح سے اسرائیلی ظلم و بربریت پر خاموش ہیں اس نے حالات کو مذید بدتر کرریا ، اسرائیل اور ایران میں جاری کشیدیگی مشرق وسطی کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ، ایسے میں اس خدشہ کا اظہاربھی کیا جارہا ہے کہ مشرق وسطی کی صورت حال سے چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں زیادہ دیر تک لاتعلق نہیں رہ سکیں گی ، اس پس منظر میں ایس سی او سمٹ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ، قوی امکان ہے کہ اس اہم اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں مشرق وسطی میں قیام امن کی بات کی جائے ، علاقائی اور عالمی تنازعات بارے پاکستان کا موقف بڑا واضح ہے ، اسلام آباد کی ہمیشہ خواہش و کوشش رہی ہے کہ کراہ ارض پر انصاف اور مساوات کو بالادستی حاصل ہو، قوی امکان ہے کہ وزیر اعظم شبہازشریف نہ صرف فلسطین میں جاری جنگ وجدل کے خاتمہ کا مطالبہ کریں گے بلکہ اسرائیلی جارحیت کی بھی ایک بار پھر کھل کر مذمت کی جائے گی ، مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے مسلہ کشمیر کے حل بارے بھی علاقائی ممالک کو اپنی زمہ داریوں کا احساس دلائے گا ، پاکستان ہر پلیٹ فارم پر اپنا یہ موقف دہراتا چلا آرہا ہے کہ کشمیر اور فلسطین جیسے تنازعات حل کیے بغیر علاقائی اور عالمی سطح پر قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، پاکستان اس اہم موقعہ پر یہ مطالبہ بھی کرسکتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز کا خاتمہ کیا جائے ، یقینا کالعدم تحریک طالبان پاکستان جیسی تنظیمیں خطے کو عدم استحکام سےدوچار کرنے کے راستے پر گامزن ہیں، ہم جانتے ہیں کہ افغانستان کئی دہائیوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ رہا ہے ، ماضی کے واقعات کو دیکھتے ہوئے آج بھی یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ طالبان حکومت کو دوسرے ممالک میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ، یقینا ایس سی او سمٹ کے پلیٹ فارم سے یہ مسئلہ بھی اٹھانے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے