کالم

ایک کھلا خط…. عوام کے نام

گوندل مویشی منڈی کی سنجوال روڈ اٹک منتقلی، ہزاروں لوگوں کا روزگار ختم ھونے کا خدشہ ہے۔پسِ پردہ حقائق کیا ہے۔کیا چند خاندانوں کے ذاتی مفادات کیلئے عوام کی بلی چڑھائی جا رہی ہے۔عوام کا ملا جلا ردِ عمل۔آج کل ضلع اٹک اور اس کے گردو نواح کے علاقوں میں ایک خبر بہت زیادہ زیرِ بحث ہے کہ مشہور گوندل منڈی سے بڑے جانوروں کی سنجوال روڈ اٹک پر قائم نئی منڈی میں منتقلی ہورہیہے”۔ میڈیا کے مطابق عوام خصوصاعلاقہ چھچھ کے مکینوں میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ چند خاندانوں کے ازلی غلام کچھ لوگ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے عوام کے غصے کو مزید ھوا دے ھیں۔صائب الرائے لوگوں کا کہنا ہے کہ عوام کو چاہئے کہ کچھ تلخ حقائق کو جان کر ہی کسی بھی احتجاج یا غیر معمولی اقدام کا فیصلہ کریں۔ یہ ایک حقیقت ھے کہ ڈیڑھ سو سالہ قدیمی گوندل منڈی سے نہ صرف آدھے پنجاب اور تین چوتھائی صوبہ کے پی کے کے کاروباری حضرات اور کسان مستفید ھوتے چلے آرہے ہیں بلکہ مقامی و گردو نواح کے ہزاروں لوگوں کا روزگار بھی اس منڈی سے منسلک ہے۔ سو سال سے زائد عرصہ سے ھر سوموار کے روز لگنے والی اس منڈی کی حیثیت لوگوں کے لئے ھفتہ وار میلے کی بھی ھے۔ ساتھ ھی ساتھ ضلعی حکومت کو بھی سالانہ کروڑوں روپے کی آمدن گوندل منڈی سے ہوتی ہے۔خبر یہ بھی ہے کہ چند سال قبل اس گوندل منڈی کو جدید تقاضوں کے مطابق بنانے اور چلانے کیلئے مویشیوں، کاروباری حضرات اوردکانداروں کی سہولت کیلئے کروڑوں روپے کی تعمیرات کی گئیں جس کی عوام میں خوب پذیرائی ہوئی اور ضلعی حکومت کیلئے بھی سالانہ ٹھیکوں کے ذریعے کروڑوں روپے کی آمدن کا ذریعہ بنی۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ھے کہ عوام الناس میں یہ خبر بھی شدومد سے گردش کرتی رہی ہے کہ ان تعمیرات کیلئے ایک پارٹی کے فنکاروں نے دوسری پارٹی کے پیش کاروں کے ذریعے، حکومت کے اس وقت کے اہلکاروں کو، مال کھلا کرکھلا مال بنانے کے لئے منڈی کی تعمیرات کے ٹھیکے حاصل کئے۔
تب سے اب تک تعمیراتی ٹھیکیداروں سے ہر آنے والے اعلی ٰسطح کے حکومتی اہلکاروں نے اپنے حصے کی شیرینی وصول کی۔ لیکن اب ”گڑ تھیلی کے ساتھ“لگ گیا ہے۔ نہ کھلانے والے کے ہاتھ کچھ بچا ہے، نہ کھانے والے کے منہ میں کچھ جا رہا ہے۔ اسلئے دونوں نے مل کر ”پرانی تھیلی“چھوڑ کر”نئی تھیلی“کا منہ کھولنے کا پلان بنایا ھے اور پراجیکٹ کا نام منڈی حسین آباد، سنجوال روڈ رکھ دیا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ فرنٹ پر جو بھی ہوگا، پیچھے ”وہی گھرانے“ہی ہونگے۔ عوام کا بھلا، کب اور کس نے سوچا یا کیا ہے۔ اب عوام میں یہ سوچ پیدا ھوگئی ھے کہ آخر کب تک ھم اور ھمارے جیسے لوگ عوام کے حقوق کے تحفظ کا طوق گلے میں ڈالے رکھیں گے اور چند خاندانوں کے پیشکاروںکے حقوق کے تحفظ کا فریضہ ادا کرتے رھیں گے؟ اب عوام میں یہ احساس زور پکڑتا جارہاہے کہ *اپنے اور اپنے بچوں کے حقوق کا تحفظ بھی تو، ہماری ہی ذمہ داری ہے۔قارئین اب فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے کہ محض معیشت کو مقدم رکھنا ہے یا پھر اخلاقیات اور روایات کو ترجیح دینی ھے؟ کیا کٹھ پتلیوں کی طرح دوسروں کے اشاروں پر ناچتے رہناہے یا اپنی معیشت اور اپنے بچوں کے مستقبل پر بھی دھیان دینا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri