کالم

بجلی بلز،جماعت اسلامی عدالتوں میں جائےگی

riaz chu

بجلی کے بلوں میں بار بار اضافے اور بجلی کے حقیقی استعمال کے علاوہ جتنے تیرہ ٹیکس لگائے جا رہے ہیں اس کے خلاف متعلقہ ہائیکورٹوں سے حکم امتناعی حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ جماعت اسلامی نے بجلی بلوں ، مہنگائی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ملک گیر اور کامیاب ہڑتال کر کے ایک بہت اچھا اور احسن اقدام کیا۔ عام لوگ بجلی کے بلوں میں تیرہ ٹیکسوں کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہیں اور بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی وصولی ، تیل کی قیمتوں میں اضافے اور گیس کی قیمتیں بڑھانے سے کم وسائل رکھنے والے بائیس کروڑ عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ تقریباً پندرہ کروڑ سے زائد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ سات کروڑدرمیانی درجے کے عوام بھی بجلی گیس اور تیل کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے نہایت پریشان ہیں۔ عام لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ بجلی کمپنیوںکی جانب سے بلوں میں اضافی ٹیکسوں کی وصولی رکوانے کےلئے ہائی کورٹوں سے رجوع کر سکیں۔ راقم الحروف کی امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق صاحب کی خدمت میں مودبانہ گزارش ہے کہ جن جن علاقوں میں بجلی کمپنیوں کے صدر دفاتر ہیں وہاں جماعت اسلامی کے سربراہ اور رہنما ءمتعلقہ ہائیکورٹوں میں رٹیں دائر کر کے بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی وصولی کے خلاف حکم امتناعی حاصل کریں تاکہ صارفین آسانی کے ساتھ بجلی کے اصل بلوں کی ادائیگی کر سکیں۔ جماعت اسلامی کی جانب سے بجلی کمپنیوں کے خلاف متعلقہ ہائیکورٹوں سے رجوع کرنا وقت کی اہم ضرورت اور عام لوگوں کا مطالبہ ہے۔ جماعت اسلامی اس سلسلے میں اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرے گی تو عوام الناس یقینا اس کا پرجوش خیر مقدم کریں گے۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے دور میں بجلی کی قیمت میں اوسطا سو گنا تک اضافہ ہونے کے بعد نگران حکومت نے بھی فی یونٹ قیمت کو مزید بڑھایا جس کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کے لیے درآمدی فیول جیسے گیس، کوئلہ اور فرنس آئل کی قیمتوں میں اضافہ بھی رواں ماہ کے بجلی کے بل میں ہوش ربا اضافے کی ایک وجہ بنا۔بجلی کی قیمت کے علاوہ بل میں ایک اہم چیز فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہے جو بجلی پیدا کرنے کے ذرائع یعنی ایندھن جیسا کہ کوئلہ، فرنس آئل یا گیس کی لاگت پر منحصر ہوتی ہے جس کا تخمینہ ہر ماہ لگایا جاتا ہے اور پھر صارف سے وصول کر لیا جاتا ہے۔اس معاملے میں روپے کی قدر بھی اہمیت کی حامل ہے۔دوسری جانب ’فنانسنگ کاسٹ سرچارج‘ کی مد میں فی یونٹ 0.43 پیسے صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں جو دراصل گردشی قرضے کو کم کرنے کےلئے لگایا گیا ہے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے جارہ کردہ بلوں میں یہ رقم ’پی ایچ ایل ہولڈنگ‘ کے نام پر لی جاتی ہے۔اسی طرح سہ ماہی یا ’کوارٹرلی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ‘ یا ’ڈی ایم سی‘ کی مد میں بھی صارفین سے اس وقت پیسے وصول کیے جاتے ہیں جب حکومت بجلی کی قیمت میں رد و بدل کرتی ہے۔اگر ہم مثال کے طور پر لیے جانےوالے بل کی بات کریں تو اس میں سب سے زیادہ ٹیکس جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں وصول کیا جا رہا ہے جو 18 فیصد کے حساب سے ہے۔اس کے علاوہ اگر آپ ٹیکس فائلر نہیں ہیں، تو بجلی کے بل میں انکم ٹیکس بھی لگ کر آئے گا۔واضح رہے کہ 25 ہزار روپے سے زیادہ کے بجلی کے بل پر ہی انکم ٹیکس لگتا ہے اور یہ مجموعی بل کی لاگت کا ساڑھے سات فیصد ہوتا ہے۔اسی طرح حکومت دو اور مدوں میں بھی صارف سے براہ راست پیسے وصول کرتی ہے جن میں سے ایک تو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے اوپر لگایا جانے والا جی ایس ٹی ہے اور دوسرا ٹی وی فیس ہے۔پاور ہولڈنگ لمیٹڈ سرچارجز کے نام سے ہر گھریلو صارف سے فی یونٹ 43 پیسے جبکہ کمرشل صارفین سے 3 روپے 82 پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ڈھائی سو یونٹ کے بل پر الیکٹرک سٹی ڈیوٹی، سیلز ٹیکس ٹی وی ایل فیس ملا کر ٹیکسز اور ڈیوٹیز 13 فیصد سے زائد ہیں۔اگر ایک بل تقریباً ڈھائی سو یونٹ کا ہے تو 27 روپے فی یونٹ کے حساب سے پرائز 7 ہزار روپے ہوں گے لیکن ٹیکسز اور دیگر چارجز تقریباً ساڑھے 5 ہزار روپے کے بنیں گے اور یوں 7 ہزار کا بل ساڑھے 12ہزار کا ہوجائے گا۔ہمیں جتنی جلدی ممکن ہو آئی ایم ایف سے جان چھڑانی چاہیے۔ برازیل نے بھی آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کیا تھا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ وہ قرضوں کی ادائیگی کے قابل نہیں رہے۔ برازیل کی حکومت نے آئی ایم ایف کو صاف جواب دے دیا کہ برازیل ان قرضوں کی ادائیگی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح پاکستان کے عوام نگران حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادائیگی سے معذرت کر لیں اور ان کو بتاد یں کہ پاکستان اس وقت قرضوں کی ا دائیگی نہیں کر سکتا۔ حکومت کے اس اقدام سے کوئی بھونچال نہیں آئیگا بلکہ بائیس کروڑ عوام اپنی زندگی آسان بنانے کے قابل ہو جائینگے۔ معاشی طور پر مضبوط عالمی طاقتوں کو اس مرحلے پر پاکستان کی حمایت کرنا ہوگی۔پاکستان ایشیا ءکے اس خطے میں بہت اہم جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے تمام بڑے ممالک کو پاکستان کی حمایت کرنا ہوگی تاکہ اس خطے میں سیاسی و معاشی استحکام برقرار رہے۔ یوں دنیا میں بھی امن رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے