کالم

بلوچستان میں عام معافی کا اعلان

بلوچستان کے عوام اپنے جائز سیاسی حقوق کےلئے عرصہ دراز سے جدوجہد کررہے ہیں اس مقصد کے لئے پر امن مساعی کے علاوہ انہوں نے ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں کا رخ بھی کیا اور حکمرانوں نے مفاہمت اور مصالحت کے خوش کن وعدے کئے تو نیچے بھی اتر آئے مگر سات دہا ئیاں گزر جانے کے باوجود ان کی شکایت کا ازالہ نہیں ہوا بلکہ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ ان میں کئی گنا اضافہ بھی ہوگیا ہے بلوچستان کی موجودہ سنگین صورت حال کی بنیادی ذمہ داری سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے جن کے پاس مرکز اور صوبے میں اقتدار آیا تو انہوں نے ملک کے اس سب سے بڑے صوبے کے گوناگوں مسائل کے دیرپا حل کے لئے یہاں کے عوام کی خواہشات اور امنگوں کو در خود اعتنا نہیں سمجھا اور ایسے فیصلے اور اقدامات کئے جن سے دلوں میں شکایتیں اور ذہنوں میں بد گمانیاں بڑھتی گئیں نوبت بایں جاسید کہ وہاں کی نوجوان نسل میں مرکز گریز رحجانات پرورش پانے لگے جن کا آج مختلف واقعات کی صورت میں اظہار ہو رہا ہے حکمران طبقے کے علاوہ بلوچستان میں فوج کے کردار پر بھی ہمیشہ انگلیاں اٹھتی رہی ہیں پاک فوج نے ابتلاوآز مائش کے وقتوں میں جہاں بلوچستان میں مثالی امدادی کام کئے وہاں کچھ کارروائیاں ایسی بھی کیں جن سے بلوچ عوام کے دل زخمی ہوئے پرویز مشرف کے دور میں جہاں پورے ملک میں دہشت گردی ماورائے عدالت قتل جیسی مذموم کارروائیوں کو عروج ملا وہیں پر بلوچستان میں خصوصی طور پر محب وطن بلوچوں کو ٹارگٹ کیا گیا بزرگ بلوچ رہنما اکبر بگٹی کے قتل کے بعد سی آئی اے’موساد را اور خاد نے بلوچستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پنجا بیوں کا قتل عام کروانا شروع کیا ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کھیلنے والے بلوچ نوجوانوں نے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا قومی ترانے پر پابندی عائد کی گئی قومی پرچم کی توہین کی گئی بلوچستان کو اس وقت علیحدگی پسندی ہی نہیں شدت پسندی کے کئی دوسری عفریتوں کا بھی سامنا ہے ان میں فرقہ وارنہ دہشت گردی’اغوا برائے تاوان اور قبائلی جھگڑے اور بیرونی مداخلت سب سے نمایاں ہیں اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور محب وطن پاکستانی انکار نہیں کر سکتا کہ بلوچستان کی ترقی میں پاکستان کی ترقی پوشیدہ ہے صوبے کے عوام کی محرومیوں مایوسیوں اور پسماندگی نے عوامی اور سیاسی حلقوں میں جس ناخوشگوار رد عمل کو جنم دیا حکمرانوں کی جانب سے اسے نظر انداز کرنے کے نتیجے میں آج صورت حال تشویش ناک ہو چکی ہے جہاں تک بلوچستان میں قدرتی وسائل کا تعلق ہے صوبے میں گیس’ کوئلہ’ پٹرول’ چاندی’ سونا اور تانبے کے علاوہ متعدد دوسرے معدنی وسائل کی بھی نشاندہی ہوچکی ہے گیس کے سب سے بڑے ذخائر بلوچستان میں ہیں’ چینی ماہرین کے فنی اور مالی تعاون سے چاندی اور تانبے کے ذخائر دریافت کرنے کے بعد ان سے استفادہ بھی کیا جاتا رہا صوبے کی پسماندگی کے تناسب سے ان وسائل سے حاصل ہونےوالی آمدن میں اپنے حصے کا مطالبہ کوئی غلط بات نہیں جغرافیائی اعتبار سے بلوچستان کا شمار دنیا کے حساس ترین خطوں میں ہوتا ہے اس کے ایک جانب وسطی ایشیا کی قربت ہے تو دوسری طرف بحیرہ عرب کے راستے گرم پانیوں تک رسائی کا خواب’ لہذا سی آئی اے ‘را اور موساد کا مشترکہ پلان طویل عرصہ سے اس علاقے کو ٹارگٹ کئے ہوئے ہے بلا شبہ پاکستان کی ترقی بلوچستان کی ترقی سے مشروط ہے چنانچہ صوبہ بلوچستان کی معدنی دولت اس کے قدرتی وسائل اور جغرافیائی اہمیت کی بدولت ہی پاکستان رقبے کے اعتبار سے دنیا کا ایک بڑا ملک ہے اور یہاں کے معدنی ذخائر ہماری قسمت بدل سکتے ہیں اس پسماندہ صوبے میں دنیا کی بہترین 43 معدنیات کے وسیع ذخائر موجودہ ہیں جو نہ صرف صوبل بلوچستان بلکہ ملکی معاشی مسائل کا خاتمہ کرکے یہاں خوشحالی لانے کا سبب بن سکتے ہیں زمین کی تہوں میں پوشیدہ معدنی خزانے میں پٹرولیم سب سے اہم ہے جبکہ قیمتی معدنیات میں سونا کے حصول کے لئے امریکہ مسلسل تگ ودو کر رہا ہے امریکہ گوادر میں چین کی موجودگی کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے یہی وہ حالات ہیں جس کی بنا پر بلوچستان ہدف ہے تجزیہ کار بلوچستان میں پیدا شدہ حالات کو بنیادی طور پر سیاسی مسئلہ قرار دیتے ہیں ان کے مطابق اسے سیاسی ذرائع سے حل کرنا چاہئے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں واپس آنےوالوں کےلئے عام معافی کا اعلان اور ان کے مسائل کا حل نکالنے کی یقین دہانی بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی ذرائع سے حل کرنے کی جانب ایک انتہائی اہم قدم ہے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے اس دو نکاتی اعلان کے پیچھے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے اور معدنیات سے بھرپور صوبے کے مسائل کا حل دکھائی دیتا ہے جن میں صحت’ تعلیم’ روز گار اور مواصلات سر فہرست ہیں صوبے میں صحت کی سہولتیں صرف32فیصد آبادی کو میسر ہے جبکہ اکثریت اپنے بنیادی حق سے محروم ہے ایک رپورٹ کے مطابق یہاں آبادی کے لحاذ سے ہر سات ہزار تین سو لوگوں کے لئے ایک ڈاکٹر ہے جبکہ دیہی علاقوں کی حالت زار شہری علاقوں سے بھی بد تر ہے عالمی بنک کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 30فیصد آبادی غربت کا شکار اور بلوچستان میں یہ شرح 42.02 فیصد ہے بلوچستان کے ضلع واشک کی آبادی کا 72 فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے بلوچستان غذائی قلت کا بھی شکار ہے یہاں 53 فیصد بچوں کو پوری غذا نہیں ملتی جس کی وجہ سے ان کی افزائش کا تناسب بھی کم ہے آغا خان یونیورسٹی کے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے 20اضلاع کے لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں 10 اضلاع بلوچستان کے ہیں بلوچستان کے کئی علاقوں میں ڑکیں تک موجود نہیں جبکہ تعلیمی ادارے تو سرے سے ہی نہیں ہیں جس علاقے میں تعلیمی ادارہ ہو وہاں کا سردار اپنے ماتحتوں کو تعلیم کی اجازت ہی نہیں دیتا بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے مگر ان سے استفادہ کرنے میں جو سست روی نظر آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں صوبے کی ترقی کو ترجیحات میں بہت نیچے رکھا گیا گیا ماضی کی حکومتیں قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے کے اقدامات نہ کرسکیں جس کی وجہ سے جو معاشی فوائد ان وسائل سے حاصل ہوسکتے تھے پاکستان اور صوبے کے عوام ان سے محروم رہے ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ماضی میں صوبے کی شکایات کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ مسائل بڑھتے بڑھتے کس طرح بے چینی اور اضطراب کی صورت اختیار کرچکے ہیں اس پس منظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بلوچستان میں آج جوبھی مسائل ہیں وہ سیاسی حکمرانوں اور فوج ہی کے پیدا کردہ ہیں اور انہیں حل بھی انہی کو کرنا ہوگا صوبہ تعمیروترقی میں دوسروں سے کیونکر پیچھے رہ گیا،اس کی اصل وجہ سمجھنے اور اسے پائیدار بنیادوں پر دور کرنے کیلئے وفاق کی سرپرستی میں صوبے کی حکومت کو قبائلی عمائدین اور ناراض افراد کے نمائندوں کے ساتھ مل بیٹھ کر قلیل، درمیانے اور طویل مدتی پروگرام بنانے چاہیں وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا عام معافی کا اعلان تب ہی موثر ثابت ہوگا جب صوبے کے افرادکو ہر شعبہ زندگی میں آگے آنے کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے