کالم

بھارتی جیلوں میںمسلمانوں کا قتل

بھارتی ریاست اتر پردیش کی باندہ جیل میں عمر قید کاٹنے والے مسلمان سیاسی رہنما مختار انصاری کی پراسرار موت نے سوالات اٹھادیئے ہیں۔مختار انصاری کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد ریاست بھر میں صورتحال کشیدہ ہے ۔ ریاست بھر میں سکیورٹی سخت کردی گئی ہے جبکہ نیم فوجی دستے مارچ کررہے ہیں ۔ اپوزیشن ارکان نے الزام عائد کیا ہے کہ 5مرتبہ ریاستی اسمبلی کے رکن رہنے والے انصاری کو قتل کیا گیا ہے اور اس کی انکوائری کرائی جائے۔مختار انصاری نے سلو پوائزن دیئے جانے کا الزام عائد کیا تھا ۔ کانگریس کے رہنما سریندر راجپوت نے کہا کہ”مختار انصاری نے چند روز قبل الزام لگایا تھا کہ انہیں سلوپوائزن دیا جارہا اور اب انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہوگئی، اس کی ہائی کورٹ کے موجودہ جج کی نگرانی میں تفتیش ہو تاکہ پتہ چلے کہ جیلوں میں لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔اترپردیش حکومت نے متنازع بھارتی سیاست داں مختار انصاری کی جیل میں دل کا دورہ پڑنے سے موت کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ اتر پردیش کی باندہ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے مختار انصاری جمعرات کو دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے۔۔ چند دنوں قبل ان کے بیٹے نے عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی اور الزام لگایا تھا کہ 63 سالہ انصاری کے کھانے میں زہر دیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ان کی طبعیت بگڑتی جارہی ہے۔ لیکن جیل حکام نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔کل شام انہیں بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ انہیں دل کا دورہ پڑا ہے اور تمام تر کوششوں کے باوجود انہیں بچایا نہیں جاسکا۔مختار انصاری پرقتل اور اغوا سمیت مجموعی طورپر 65 مقدمات چل رہے تھے۔ غازی پور کے رہنے والے مختار انصاری کا تعلق مجاہدین آزادی کے خاندان سے تھا۔ ان کے دادا ڈاکٹر مختار احمد انصاری جنگ آزادی کے صف اول کے رہنماﺅں میں شامل تھے اور وہ سن 1926-27 میں کانگریس کے صدر بھی رہے۔ بھارت کے سابق نائب صدر حامد انصاری رشتے میں مختار انصاری کے چچا ہیں۔ ان کے والد سبحان اللہ انصاری بھی مقامی سیاست میں کافی سرگرم تھے۔ 1996میں بہوجن سماج پارٹی کی ٹکٹ پر پہلی مرتبہ اترپردیش اسمبلی پہنچنے والے مختار انصاری سن 2002 ،2007، 2012 اور 2017 میں بھی مو¿ اسمبلی حلقے سے منتخب ہوئے۔ آخری تین انتخابات انہوں نے جیل میں رہتے ہوئے جیتے۔رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بھی انہیں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "مختار صاحب نے انتظامیہ پر سنگین الزامات لگائے تھے کہ انہیں زہر دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے ان کے علاج پر کوئی توجہ نہیں دی۔ شرمناک اور افسوس ناک۔ سابق رکن اسمبلی مختار انصاری کا ادارہ جاتی قتل… یہ قانون، آئین اور فطری انصاف کو دفن کر دینے کے مترادف ہے۔جو حکومت لوگوں کے جان کی حفاظت نہیں کرسکتی اسے اقتدار میں رہنے کا حق نہیں ہے ۔ بھارت میں بے شمار مسلم نوجوان برسوں سے جعلی اور بے بنیاد دہشت گردانہ الزامات کے تحت جیلوں میں مقید ہیں۔ انسانی حقوق کےلئے سرگرم کارکن بھارتی اداروں کے اس طرز عمل کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔مسلمانوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا خیال ہے کہ بے بنیاد دہشت گردانہ الزامات کے تحت بے شمار بے گناہ مسلمان بھارتی جیلوں میں مقید ہیں۔ ابھی حال ہی میں سینکڑوں ایسے گرفتار شدگان کو طویل عدالتی عمل کے بعد جیلوں سے نجات حاصل ہوئی ہے۔ ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے سلامتی کے اداروں کو مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے عمل سے اب اجتناب کرنا چاہیے۔گجرات پولیس کے ہاتھوں نو برس قبل انیس برس کی عشرت جہاں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ اس پولیس مقابلے کی آزادانہ تفتیش ابھی اسی ہفتے کے دوران مکمل ہوئی ہے۔ بھارت کے کریمینل بیورو برائے تفتیش نے عشرت جہاں کے قتل کو پولیس مقابلہ قرار دیا ہے۔ نو سال بعد حکومت کے تفتیشی ادارے نے کہا ہے کہ عشرت جہاں کسی بھی طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھی اور وہ گجرات پولیس اور ریاستی خفیہ ادارے کے مشترکہ آپریشن کے دوران ماری گئی تھی۔سول رائٹس کے سرگرم کارکنوں اور وکلاءکے مطابق ابھی بھی بھارت کی مختلف جیلوں میں جھوٹے دہشت گردانہ الزامات کے تحت بے شمار مسلمان لڑکے اور مرد اپنی رہائی کے منتظر ہیں۔ حال ہی میں بھارت کے مختلف شہروں کی عدالتوں سے جھوٹے مقدمات کے تحت گرفتار مسلمان قیدیوں کو رہائی دی گئی ہے۔ رواں برس کے اوائل میں حیدر آباد کی ایک عدالت نے پانچ سال قید کے بعد ایک درجن کے قریب نوجوان مسلمانوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ ان کو شہر کی مکہ مسجد میں بم حملے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارت میں انسداد دہشت گردی کی ایک نئی لہر شروع کر کے مسلم کمیونٹی کے نوجوانوں کو ہراساں کرنے کے علاوہ انہیں گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔ گرفتاری کے بعد یہ نوجوان پولیس ٹارچر کا نشانہ بھی بنتے ہیں اور بعد ازاں ان کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کر دیا جاتا ہے۔ یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ سکیورٹی کے نام پر گرفتار کیے گئے مسلم کمیونٹی کے نوجوانوں کو ایک اور حکومتی ادارہ یعنی عدالت بری کر دیتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے