کالم

بھارت میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح

دنیا کے بہت سے ممالک کو2020 میں بے روزگاری کا سامنا ہے لیکن بھارت میں یہ شرح بہت سی ترقی پذیر معیشتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تنخواہ دار ملازمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سی نجی کمپنیوں اور اداروں نے عالمی وبا کے دوران اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے نوکریوں میں کٹوتیاں کی ہیں۔ بھارت میں اس وقت بے روزگاری کا تناسب 40 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔بھارت میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے سربراہ راہل گاندھی نے ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے لیے مودی سرکار کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش اور بھوٹان میں بھی بھارت سے کم بے روزگاری ہے۔پاکستان میں بے روزگاری کا تناسب 12 فیصد جبکہ بھارت میں بے روزگاری کا تناسب 23 فیصد ہے۔ مودی سرکار کی پالیسیوں نے غریبوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ نوٹ تبدیل کرنے اور جی ایس ٹی کی شرح بڑھانے سے چھوٹے اور گھریلو کاروبار بند ہوگئے۔سنٹرفارمانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر میں بھارت میں بے روزگاری کی شرح 16 ماہ کی بلند ترین سطح پر 8.30 فیصد پر پہنچ گئی، جو گزشتہ مہینے میں 8.00 فیصد تھی۔بھارت میں بے روزگار افراد کی بڑھتی ہوئی شرح نے بھارتیوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے جبکہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دسمبر میں شہری سطح پر بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 10.09 فیصد ہو گئی، جو نومبرمیں 8.96 فیصد تھی، جبکہ دیہی علاقوں میں بے روزگاری کی شرح 7.55 فیصد سے گھٹ کر 7.44 فیصد ہوگئی۔بھارت میں شہری علاقوں میں بے روزگار افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔جبکہ اس سال ہونے والے عام انتخابات سے قبل وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے لیے مہنگائی پر قابو پانا اور نوجوانوں کے لیے ملازمتیں پیدا کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔بیروزگاری کا مسئلہ حل کرنے میں بھارتی حکومت کی سنجیدگی کا یہ حال ہے کہ بھارت میں ایک مرکزی وزیر نے ملک میں بڑھتی بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے ایک نادر نسخہ پیش کیا ہے۔ وزیر نے بیروزگاروں کو گائے کا گوبر اور پیشاب فروخت کرنے کا مشور ہ دیاہے۔بھارتی وزیر کے مطابق چار گائے پال کر ان کے گوبر اور پیشاب سے ایک سال میں بیس لاکھ روپے کمائے جاسکتے ہیں۔ وزیر گری راج نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”دودھ کی ضرورت بہت ہے، دودھ کا منافع تو الگ ہے جب کہ ایک کلو گوبر سے بھی بیس روپے کمائے جاسکتے ہیں لیکن کچھ لوگ میرے اس بیان پر کہیں گے کہ گری راج پاگل ہے۔“ انہوں نے کوآپریٹیوبینکوں کو مشورہ دیا کہ وہ کسانوں کو منافع کے طور پر نقد رقم کے بجائے بچھڑا اور چارہ دیں۔بی جے پی رہنما نے بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا، ”اگر نہرو بھارت میں طویل عرصے تک رہتے تو یہاں مویشی پروری اورماہی پروری جیسے کاروبار کی صورت حال کافی خراب ہوجاتی۔“ خیال رہے کہ مودی حکومت کی طرف سے بھارت کے تمام مسائل اور پریشانیوں کے لیے کانگریس پارٹی اور سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔گائے کے گوبراور پیشاب کے متعلق ہندو قوم پرست لیڈروں کے بیانات کے ساتھ ساتھ نریندر مودی حکومت بھی اس معاملے میں کافی سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ مودی حکومت گائے کے گوبر اور پیشاب سے نئے پروڈکٹ بنانے پر خاصا زور دے رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے گذشتہ برس راشٹریہ کام دھینوآیوگ(قومی گائے کمیشن)قائم کیا تھا۔کمیشن گائے کے گوبر اور پیشاب کے طبی اور زرعی استعمال کو فروغ دینے پر غور کر رہا ہے۔بھارت میں انجینئرنگ کے اعلی تعلیمی ادارہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی دہلی کو ’پنچ گویا (گائے سے حاصل ہونے والی پانچ چیزیں) گوبر، پیشاب، دودھ، دہی اور گھی پر ریسرچ کے لیے مختلف اکیڈمک اور تحقیقی اداروں سے پچاس سے زائد تجاویزموصول ہوئی ہیں۔ حکومت نے انیس اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو گائے کے پیشاب سے لے کر گوبر اور گائے سے ملنے والی تمام چیزوں پر تحقیق کرے گی۔ کمیٹی میں ہندوقوم پرست تنظیم آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کے اراکین بھی شامل ہیں۔امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے بھارت سے غذائی اجناس ، اشیائے خورونوش کی درآمد پر اس لئے پابندی عائد کر دی کہ ان اشیاءمیں مردہ چوہوں کے اجزائ، پرندوں کے پر اور نقصان دہ کیڑے مکوڑے پائے گئے تھے۔ ادارے کی تحقیقات کے مطابق ان اشیاءمیں گائے کا پیشاب اور گوبر کی آمیزیش بھی تھی۔ بعض اشیاءمیں تو اس کی مقدار 18 فیصد سے بھی زائد تھی۔ بھارت میںگائے کی غلاظت کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ دودھ کی فروخت گائے کے پیشاب کے مقابلے میں کم ہو گئی ہے۔ بھارتی خواتین اسے اکھٹا کرنے کیلئے بہت تگ و دو کرتی ہیں۔ یہ غلاظت کئی طرح کے خطرناک بیکٹیریا اور وائرس کی حامل ہے۔سڈنی یونیورسٹی کے بھارتی پروفیسر کا کہنا تھا کہ بھارت میں تین مہلک امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں جو گائے کے پیشاب کی وجہ سے لوگوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ گائے کی غلاظت سے گھریلو سطح پر تقریباً تیس ادویات تیا ر کی جا رہی ہیں۔بھارت میں گائے کے پیشاب کا سب سے بڑا خریدار یوگا گرو بابا رام دیو ہے جو اس غلاظت سے مختلف مصنوعات تیار کرتا ہے جس کی وجہ سے کئی عالمی سطح کے کارروباری گروپس کی بھارت میں تیار کردہپروڈکٹس کے بند ہونے کا خدشہ پید اہوگیا ہے۔رام دیو یورین سے تیار اپنی مصنوعات کی فروخت کیلئے یومیہ ڈیڑھ لاکھ روپے اشتہاری مہم پر خرچ کرتا ہے۔ بھارت میں ایک تھراپی ہیلتھ کلینک ماہانہ 25ہزار لیٹرپیشاب خریدتا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ ا س نے گزشتہ دو دہائیوں میں 12لاکھ مریضوں کا علاج اسی غلاظت سے کیا ہے جو اپنی پروڈکٹس کو یومیہ چار ہزار آن لائن مریضوں کو فروخت کرتا ہے۔بھارتی جنتا پارٹی کے لوک سبھا کے رکن سبرامینیم سوامی گائے کے تحفظ کے لئے موجودہ حکومتی کوششوں سے اتفاق نہیں کرتے، انہوں نے کہاکہ بھارت اس وقت دنیا میں گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اسی لئے بھینس کی آڑ میں لوگ گائے کو ذبح کرتے ہیں اور بھینس کا گوشت بنا کر فروخت کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے