تحریر ! مرزا اختیار بیگ
زندہ قومیں اپنے عظیم لیڈروں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں جنہوں نے وطن عزیز کیلئے اپنی جانیں قربان کیں۔ اللہ تعالی نے پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسے عظیم لیڈر عطا کئے جنہوں نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنادیا۔ میرا اور میری فیملی کا شہید بینظیر بھٹو سے قریبی تعلق رہا ہے اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ان کے قریب رہ کر ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ آج میں شہید بینظیر بھٹو کی 17ویں برسی پر ان کیساتھ گزارے گئے کچھ یادگار لمحات قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ شہید بینظیر بھٹوسے میری پہلی ملاقات 1994 میں سائٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ تقریب میں ہوئی جس میں انہوں نے مجھے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے اور بیمار صنعتوں کی بحالی پر ایوارڈ دیا۔ شہید بینظیر بھٹو نے ان بیمار صنعتوں کی بحالی کیلئے مجھ سے تجاویز مانگیں جن پر عملدرآمد کرکے پاکستان کی بے شمار بیمار صنعتیں بحال ہوئیں جس کی بناپر مجھے ان کی قربت حاصل ہوئی۔اس سلسلے میں وہ مجھے اپنے ساتھ برطانیہ، کوریا، اسپین، مراکش، ترکمانستان اور دیگر کئی ممالک کے سرکاری دوروں پر وفاقی وزرا کے ہمراہ لے کرگئیں۔ 2002 کے الیکشن میں شہید بینظیر بھٹو نے مجھے کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ na-250 سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے کہا جو میری سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔ بی بی نے مجھے پیپلز بزنس فورم اور سفارتی تعلقات کی ذمہ داریاں دیں۔ میں جلاوطنی کے دوران دبئی میں محترمہ کے قریب رہا اور ہم نے اپنے برطانوی ممبر پارلیمنٹ دوستوں اور اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کیلئے حمایت حاصل کی اوربالآخر 18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو نے وطن واپسی کا اعلان کیا۔ محترمہ نے مجھے لندن کے پارٹی اجلاس میں 2008 کے الیکشن میں دوبارہ قومی اسمبلی کے حلقہ na-250 کیلئے پارٹی ٹکٹ دیا اور بی بی اور نواز شریف کی خواہش پر مجھے مشترکہ امیدوار نامزد کیا گیا جبکہ مجھے anp، jui اور سنی تحریک کی بھی حمایت حاصل تھی۔ وطن واپسی پر بینظیر بھٹو نے طیارے سے اترتے وقت میری الیکشن کیپ نہ صرف خود پہنی بلکہ طیارے میں سوار دیگر رہنمائوں کو بھی کیپ پہننے کی ہدایت کی جسے دنیا بھر کے چینلز نے دکھایا جو میرے لئے بڑا اعزاز تھا۔ کراچی میں بی بی کے سندھ الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت ہنگامے کے بعد بی بی نے بلاول ہائوس میں ایک ہنگامی میٹنگ بلائی جس میں میرے علاوہ شیری رحمن، رضا ربانی، رحمان ملک، شاہ محمود قریشی، قائم علی شاہ، فہمیدہ مرزا، ذوالفقار مرزا اور پارٹی کے اس وقت کے اہم رہنما شریک تھے۔ میں نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ سیکورٹی کے پیش نظر ہمیں الیکشن کمیشن سے آپ کی ذاتی حاضری کا استثنی حاصل کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں، میں نے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری کنور دلشاد سے بینظیر بھٹو کی ذاتی حاضری کے استثنی کی درخواست کی جس کو مان لیا گیا لیکن رحمان ملک نے مجھے الیکشن کمیشن سے تحریری اجازت نامہ لینے کا مشورہ دیا۔ اتوار ہونے کے باوجود کنور دلشاد نے تحریری اجازت نامہ بلاول ہائوس فیکس کیا جسے دیکھ کر محترمہ نے مجھے welldone کہا۔ اس موقع پر ذوالفقار مرزا نے محترمہ سے ازراہِ تفنن کہا۔ میڈم! ایسے کام صرف مرزا ہی کرسکتے ہیں۔ محترمہ نے جواب میں کہا۔نہیں صرف بیگکرسکتے ہیں۔ محترمہ کی تعریف میرے لئے اعزاز کی بات تھی۔ اسی دوران میری الیکشن مہم جاری تھی اور مسلم لیگ (ن) کے قومی اسمبلی کے امیدوار سلیم ضیا کے میرے حق میں دستبردار ہونے سے میری پوزیشن بہت مضبوط تھی۔ 27 دسمبر 2007 کی شام میرے قریبی دوست فرخ مظہر نے اپنی رہائش گاہ پر میری انتخابی میٹنگ رکھی۔ تھوڑی دیر میں جلسے میں موجود ڈاکٹر مختار بھٹو بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور روتے ہوئے بتایا کہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ میں میزبان فرخ مظہر کیساتھ انکے ڈرائنگ روم کی طرف بھاگا جہاں ٹی وی پر بینظیر بھٹو کی شہادت کی اندوہناک خبر نشر ہورہی تھی جسے سنتے ہی میرے پاوں تلے سے زمین نکل گئی۔ میںسیدھا بلاول ہائوس بھاگا جہاں پیپلزپارٹی کے سینیٹرز اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار اپنی عظیم لیڈر کے بچھڑنے پر ایک دوسرے کے گلے لگ کر زار و قطار رو رہے تھے۔ رات گئے جب میں ٹوٹا ہوا بلاول ہائوس سے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا تو لوگ سڑکوں پر جگہ جگہ آگ لگاکر اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے تھے۔ پارٹی کی درخواست پر میں نے نوڈیرو جانے کیلئے دبئی اور مختلف جگہوں سے چارٹر فلائٹ کیلئے رابطے کئے۔ میں شہید بینظیر بھٹو کا جسد خاکی نوڈیرو سے گڑھی خدا بخش لے جانے اور مجھ سمیت لاکھوں افراد کی آہوں اور سسکیوں میں ان کی تدفین کا منظر کبھی نہیں بھول سکتا۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے کئی روز بعد ان کے بلیک بیری سے شریک چیئرمین آصف زرداری کا ایک میسج آیا کہ شہید بی بی کے آخری پیغامات میں آپ کو کیا گیا یہ ایس ایم ایس بھی شامل ہے جو بی بی نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر مجھے کیا تھا۔
"are you happy, now you must win this seat, good luck”
میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ بی بی سے یہ میری آخری گفتگو ہوگی۔ میں na-250 سے الیکشن جیت گیا تھا لیکن پیپلزپارٹی کی mqm کیساتھ اتحادی حکومت بنانے کی وجہ سے پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی جیتنے کے باوجود مجھے سندھ ہائیکورٹ میں mqm کیخلاف دائر کیس سے دستبردار ہونے کی ہدایت کی اور میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی پارٹی ڈسپلن پر عمل کیا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں وعدے کے مطابق بلاول ہائوس حلقے کی نشست بی بی کو نہ دے سکا لیکن 2024 کے الیکشن میں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو، یوسف رضا گیلانی اور دیگر سینئر رہنمائوں کی تجویز پر میں نے ڈیفنس کلفٹن اور ملحقہ علاقوں کے حلقے na-241 سے الیکشن لڑا اور اللہ تعالی نے مجھے کامیابی دی۔ میں ان شا اللہ 27 دسمبر کو قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے بی بی کی برسی پر پارٹی کی سینئر قیادت کیساتھ خصوصی طیارے میں گڑھی خدا بخش جارہا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ بی بی سے 17سال قبل بلاول ہائوس حلقے کا الیکشن جیتنے کا وعدہ پورا ہوگیا۔
کالم
بینظیر بھٹو کی17 ویں برسی
- by Daily Pakistan
- دسمبر 23, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 18 Views
- 11 گھنٹے ago