کالم

جب ہمارے دل کے دو ٹکڑے ہوئے

16دسمبر اس حوالے سے ہمارے دل پر بہت گہرے اثرات چھوڑ گیاکہ وہ سیاہ دن تھا جب پاکستان دو لخت ہو گیا۔ہمارے ملک کا بہت ہی خوبصورت نغمہ ہے ”دل دل پاکستان“۔یہ نغمہ جب بھی سنتا ہوں تو میرے سامنے آدھے دل کی تصویر آ جاتی ہے۔آدھے دل کا ٹکڑا تو چیر کر ہم سے جدا کر لیا گیا تھا۔اب ہم آدھے دل کا گانا گنگنا رہے ہیں۔3 دسمبر کی رات پاکستان اور ہندوستان کی لڑائی شروع ہوئی۔پاکستان کی قلیل سی فوج نے چومکھی جنگ لڑنی تھی۔سامنے بنگالیوں کی افواج اور پیچھے سے ہندوستان کی افواج مکتی باہنی کے روپ میں بمباری کر رہی تھی۔ادھر مغربی پاکستان کے طویل ترین محاذ پر ہندوستان کی طرف سے دن رات بمباری ہو رہی تھی۔اس کے باوجود پاکستانی افواج نے ہر محاذ پر بہت خوب مقابلہ کیا۔میں اس جنگ کے ایک ہیرو جرنیل کی کہانی لکھنا چاہتا ہوں۔وہ جرنیل 1971ءکی جنگ میں جنگی قیدی ہو گئے۔قید کے دوران تفتیش کاروں نے ان سے ان کا عہدہ پوچھا تو انہوں نے بہت چھوٹا عہدہ ”نائیک“ بتایا۔یہ عہدہ سپاہی سے ایک رینک بڑا ہوتا ہے۔لیکن انڈین کو شک تھا کہ یہ کوئی بڑا افسر ہے۔ انہوں نے اس جرنیل سے اگلوانے کے لئے ان پر شدید تشدد کر کے اذیتیں دینا شروع کر دیں۔لیکن وہ یہی کہتے رہے کہ میں ایک نائیک ہوں۔ اس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ”میری جدوجہد کی داستان“ میں بھی کیا ہے۔ آخر ایک دن ایک انڈین سولجر نے بندوق کا بٹ مارا جس سے ان کا بازوٹوٹ کر لٹک گیا۔انہوں نے دوسرے ہاتھ سے ٹوٹا ہوا بازو تھام کر اوپر اٹھا لیا اور جواب یہی دیا کہ میں نائیک ہوں۔لیکن اس پر بھی ان کا ظلم و تشدد ختم نہ ہوا۔مختلف طریقوں سے وہ انہیں اذیتیں دیتے رہے ۔ ٹوٹے ہوئے بازو کا علاج بھی نہیں کرایا۔پھر ایک دن تفتیش کے دوران ایک سولجر نے بندوق کا بٹ اتنے زور سے مارا جس سے ان کا دوسرا بازو بھی ٹوٹ گیا۔اب جنرل صاحب اپنے دونوں بازو گردن کے ساتھ لٹکا کر چلتے پھرتے اور چہل قدمی کرتے رہے۔لیکن یہ بات آخری دن تک نہ مانی کہ میں پاک آرمی کا جرنیل ہوں۔اگر وہ یہ سب کچھ بتا دیتے تو شاید انہیں اتنی مصیبتیں اور اذیتیں نہ برداشت کرنی پڑتیں۔انہیں وی وی آئی پی پروٹوکول بھی مل جاتا۔جنگ ختم ہوئی دو اڑھائی سال کے بعد ہندوستان کی قید سے جنگی قیدی واپس آئے۔جنرل صاحب میرے علاقے کے ہونے کے علاوہ میرے قبیلے کے ”ملک“ بھی تھے۔ میں نے خاص طور پر ان سے ملاقات کی اور یہ پوچھا کہ جناب آپ اتنی اذیتیں، مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کرتے رہے۔آپ نے ان کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ میں پاک آرمی کا جرنیل ہوں توانہوں نے جو جملہ کہا وہ ٹیپو سلطان کے اس جملے سے بھی زیادہ پُر جوش اور تاریخی تھا کہ ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“۔جنرل صاحب نے میری بات کا جواب اس تاریخی جملے میں دیا کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ ہندوستان میں اس خوشی کے شادیانے بجائے جائیں کہ ہماری قید میں پاکستان آرمی کا جرنیل بھی ہے۔اور پھر ساری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی بھی ہو۔میں نے ساری قید ٹوٹے ہوئے بازو¶ں کے ساتھ ایک سپاہی کی حیثیت سے کاٹی ۔ سپاہیوں کے ساتھ رہتا تھا۔سپاہیوں کے ساتھ کھاتا پیتا تھا۔اس بہادر جرنیل کا نا م جرنل تجمل حسین ملک تھا۔ان کا تعلق ضلع چکوال کے قریبی گا¶ں تھنیل کمال سے تھا۔قید سے واپس آ کر انہوں نے اپنی جان بڑے فخر سے اللہ کے سپرد کر دی۔مجھے آج یہ بات لکھتے ہوئے بڑی شرم اور دکھ محسوس ہو رہا ہے کہ ہم ہر 16دسمبر کو صرف جرنل امیر عبداللہ خان نیازی کا نام بڑے مذاق سے لے کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ہم جنرل تجمل حسین ملک جیسے ہیرو کو یاد کیوں نہیں کرتے۔ویسے میں ذاتی طور پر جنرل نیازی کو بھی انتہائی دلیر اور عقلمند ہیرو جرنیل سمجھتا ہوں۔ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جنگیں کیوں اور کس لئے لڑی جاتی ہیں۔جنگیں لڑنے کے ہمیشہ دو ہی مقاصد ہوتے ہیں۔پہلا اپنے ملک کا دفاع کرنا اور دوسرا یا پھر دوسرے ملک کی زمین پر قبضہ کر لینا۔دسمبر 1971ءکی جنگ میں اس وقت ہم یہ دونوں کام نہیں کر سکتے تھے۔نہ وہاں اپنے ملک کا دفاع کر سکتے تھے اور نہ ہی دوسرے کے ملک پر قبضہ کر سکتے تھے۔ایسی صورت میں ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔یہ جو لوگ کہتے ہیں کسی طرف سے کوئی امداد نہ بھی آتی، تو بھی جنگ ہفتہ دس دن اور لڑی جا سکتی تھی۔اس کا مقصد صرف یہی ہوتا ہزاروں عورتیں بیوہ ہوتیں،لاکھوں بچے یتیم ہو جاتے اورایک لاکھ کے لگ بھگ لوگ شہید ہو جاتے۔مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جنگ میں مارے جانے والے لوگ شہید ہوتے ہیں۔لیکن اسلام میں خودکشی کی موت بھی حرام ہے۔جب لڑائی کا کوئی مقصد باقی نہ رہے تو وہ خودکشی کے قریب موت ہوتی ہے ۔جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے یہ عقلمندی کا مظاہرہ کیا۔اپنی ذات پر بہت ساری باتیں لے لیں لیکن لوگوں کو بے مقصد مروانے سے بچالیا۔اگر ہم لوگ دوسری جنگ عظیم کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جاپانی بہت ہی دلیر اور جنگجو قوم ہے۔ ان کے کلچر میں میدان سے بھاگنا یا ہار ماننا نہیں ہے۔اگر جاپانی کمزور بھی ہے تو آپ اس کی گال پر زوردار تھپڑ رسید کریں تو وہ بھاگنے کے بجائے دوسری گال آپ کے سامنے رکھ دے گا۔دوسری عالمی جنگ میں دو ایٹم بم گرنے سے اس جنگجو قوم کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اب نہ ہم کسی دوسرے ملک پر قبضہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنا ملک بچا سکتے ہیں تو انہوں نے امریکہ کے ساتھ چند ایک شرائط پر صلح کر لی۔اس صلح میں انہوں نے اپنے دل میں ایک بات ٹھان لی کہ ہم نے ایک دن امریکہ سمیت دنیا پر قبضہ کرنا ہے۔پھر انہوں نے تاریخ میں یہ ثابت کر کے دنیا کو دکھایا۔آج امریکہ میں بھی امریکی کاروں سے زیادہ جاپانی کاریں فروخت ہو رہی ہیں۔دنیا بھر میں جاپانی مصنوعات کی مانگ بڑھ گئی۔جاپان نے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال کر بہت کچھ سیکھ لیا تھا۔پاکستان نے بھی جب ہندوستان کے سامنے ہتھیار ڈالے تو پاکستانی افواج کو بھی بالکل جاپانی افواج والے حالات کا سامنا تھا۔لیکن بد قسمتی سے ہم کچھ نہ سیکھ سکے۔کاش ہم اس کا دس فیصد بھی سیکھ لیتے تو آج نہ پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوتا، نہ مہنگائی کے سیلاب میں ڈوبا ہوتا، نہ اتنی بے روزگاری ہوتی۔جاپان میں آج کوئی بھی شخص بے روزگار نہیں۔معذروں اور نابینوں کے پاس بھی اپنے اخراجات کے لئے معقول روزگار ہے اور پاکستان میں تعلیم کی اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کر کے بھی نوجوان بے روزگار دھکے کھا رہے ہیں۔اور خود کشیوں پر مجبور ہیں کالم کے آخر میں قارئین کی معلومات میں اضافہ کرتا چلوں کہ 16 دسمبر 1971ءکو جنرل نیازی نے ہندوستان کے جس جرنیل جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے حوالے اپنا پستول دے کر ہتھیار پھینکنے کا اعلان کیا تھا اس جنرل اروڑا کا تعلق میرے ننیہالی اور ضلع چکوال کے مشہور قصبہ بھون سے تھا۔جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کا گھر ابھی تک بھون میں موجود اور محفوظ ہے اور اس نے اپنی ابتدائی تعلیم بھی اسی گا¶ں بھون میں ہی حاصل کی تھی۔میرا جب بھی جنرل اروڑا کے گھر کے پاس سے گزر ہوتا ہے تو 16 دسمبر 1971 کا دن آنکھوں کے سامنے ضرور گھومتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے