کالم

جنگوں کے اسباب

تخلیق آدم کے بعد اللہ رب العزت نے فرشتوں سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم صادر فرمایا توماسوائے عزازیل تمام فرشتے سر بسجود ہوئیں ۔عزازیل نے تکبر اور غرور کیا، حکم الٰہی کی خلاف ورزی کی اور ملعون ہوا ۔ اس وقوعہ سے انسان کا فریق پیدا ہواجو کہ ابلیس اور شیطان ہے۔ ابلیس نے انسان کو گمراہ اور ورغلانے کی کوشش شروع کی، جس کے نتیجے میں انسانوں میں فاصلے اور تفریق پیدا ہوئی۔بعض انسانوں میں انا، بغض، تکبر اور غرور کا جذبہ اُبھرا۔بعض انسان اپنے آپ کو اعلیٰ اور دوسروں کو کمتر سمجھنے لگے، بعض نادان دوسروں کے حقوق پر قابض ہونے کی جستجو کرنے لگے، حق اور باطل کی لڑائی شروع ہوئی اور یوم اختتام تک یہ جدل جاری رہے گا لیکن آخری فتح حق کی ہوگی اور باطل کو شکست ہوگی۔انسانوں کے جنگ وجدل میںکروڑوں انسان لقمہ اجل بنے ، کروڑوں مضروب ہوئے اورکروڑوں بے وطن ہوئے، ہجرت پر مجبور ہوئے ۔ افغانستان کی سرزمین پر بڑی طاقتوں نے ہمیشہ قبضہ کرنے سعی کی لیکن ناکام ہوئے ۔ ذہنوں میں سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ افغانستان بڑی طاقتوں کا قبرستان کیوں ہے؟یہاں پر بڑی طاقتوں کو ناکامی کیوں ہوئی؟یہاں پر وہ کامیاب کیوں نہیں ہوئیں اور بڑی طاقتیں یہاں سے شکست خردہ کیوں نکلتی ہیں؟اب تک یہاں سے کوئی فاتح بن کر نہیں پلٹا۔ماضی میں برطانیہ، روس اور امریکہ نے زور آزمائی اور قسمت آزمائی کی، افغانستان پر یلغار کیا، بھرپور طاقت اور غرور کا مظاہرہ کیا، جدید ترین اسلحہ کا استعمال کیا مگر ناکامی ان کی مقدار بنی،بہت جتن اور منت سماجت کے بعد راہِ فرار کا راستہ ملا۔امریکہ بہادر نے اقوام متحدہ کی چھتری تلے اٹھائیس ممالک کے ہمراہ افغانستان پر حملہ کیا ، بیس سالوں میں ہر حربہ استعمال کیالیکن پھر بھی رسوائی ہوئی، جگ ہنسائی ہوئی اور دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوا ۔ افغانستان میں بڑی طاقتوںکو ناکامی اور شکست کی متعدد وجوہات ہیں،ان اسباب کو سمجھنے کےلئے یوں تو سینکڑوں واقعات ہیں ۔ پاکستان کے قبائلی علاقے کے ایک پٹھان کراچی میں بزنس کیا کرتا تھا،ایک دن وہ پٹھان کسی کام کے سلسلے میں اپنی بہو کے ساتھ ایک ٹیکسی میں بیٹھا، تھوڑی دور جاکر ٹیکسی بند ہوگئی، ٹیکسی ڈرائیورنے پٹھان سے کہا کہ آپ نیچے اتر کر ٹیکسی کو دھکا دیں تاکہ ٹیکسی سٹارٹ ہوجائے۔جب پٹھان نیچے اترا اور ٹیکسی کو دھکا دینے لگاتو ڈرائیور ٹیکسی کو بھگا کر لے گیا اور اس کی جواں سالہ بہو کو بھی ساتھ لے گیا۔ پٹھان نے آہ و بکا کی لیکن وہ اس وقت کیا کرسکتا تھا، وہ اپنے گھر چلا آیا اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ واقعہ شیئر کیا۔ اس نے خاموشی سے وہاں اپنی دکان بند کی ، کاروبار ختم کیا اور ایک ریڑھی خریدی،وہ ریڑھی پر صبح سے شام تک محلہ محلہ ، گلی گلی ، گھر گھر اشیاء بیچنے لگا، اس دوران دس سال بیت گئے اور اس پر انکشاف ہوا کہ فلاں محلہ کے فلاں گھر میں اس کی مغوی بہو ہے،اس کے بعد اس نے علاقے اور مذکورہ گھر کو فو کس کیا، اس گھر کے افراد کے آنے جانے ،حرکات و سکنات، کاروبار و ملازمت ، کام کاج حتیٰ کہ اس گھر کے تمام افراد کا بائیو ڈیٹا بھی اکٹھا کیا ، جب معلومات اور انتظامات مکمل ہوئے تو ایک دن وہ اپنے رفقاءکے ہمراہ اس کے گھر آیا اور سب کو انجام پر پہنچایا ۔ ایک اور واقعہ صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی میں رونما ہوا،ایک شتر بان کے اونٹ نے کسی کی فصل کو نقصان پہنچایا،راوی بتاتے ہیں کہ نقصان بہت زیادہ نہیں تھا بلکہ معمولی نقصان تھا لیکن بعض لوگوں میں صبر اور برداشت کا مادہ ناپید ہوتا ہے،وہ غصے کے باعث اپنا اور دوسروں کا بہت نقصان کرتے ہیں اور اس کے نتائج بھیانک نمودار ہوتے ہیں۔کھیت کے مالک نے شتر بان کو مارا پیٹا اور زردوکوب کیا، وہ جو کچھ کرسکتے تھے،غریب اور اجنبی شتر بان سے کیا۔ وہاں سے شتربان کا گھر پچاس ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، اس نے مضروب حالت میں اپنے گھر کی راہ لی ، وہ وقتی طور پر خاموش ہوگیا اور اس وقت وہ کچھ کربھی نہیں سکتا تھا۔اس واقعہ کے بعد وقت گذرتا گیا، اٹھارہ سال کے بعد غروب آفتاب کے وقت شتر بان کھیت کے مالک کے گھر پہنچ گیا، اپنا تعارف کروایا اور اٹھارہ سال قبل جبر کاواقعہ یاد دلایا،اسی کے ساتھ ہی اس نے اُن پر فائرنگ شروع کردی۔ اس حادثے میں ایک خاتون بھی فائرنگ کی زد میں آئی اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئی فوت ہوگئی۔جب قاتل شتر بان کو اس کا علم ہوا کہ فائرنگ سے ایک خاتون بھی ہلاک ہوئی ہے تو اس کو اِس پربہت صدمہ ہوا، اس نے مقتولین کو پیغام بھیجا کہ مجھے خاتون کی ہلاکت پر دکھ اور افسوس ہوا کیونکہ میں خاتون کو قطعی قتل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ان واقعات کو مدنظر رکھ کر نائین الیون واقعہ کی جانب جاتے ہیں، نائن الیون واقعہ کے بعد امریکہ نے افغانستان سے اسامہ بن لادن کا مطالبہ کیا۔ اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی، طالبان حکومت نے امریکہ سے کہاکہ اسامہ بن لادن ہمارے مہمان ہیں، ہم مہمان کو کسی کے حوالے نہیں کیا کرتے۔ہمیںنائین الیون کے شواہد دیں، اگر ثابت ہوا کہ مذکورہ واقعہ میںاسامہ بن لادن ملوث تھا تو پھر ہم اپنے رسم ورواج کے مطابق جرگہ اور شوریٰ میں فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا چاہیے ؟ لیکن امریکہ کو اپنی طاقت پر غرور و ناز تھا، اس نے حواریوں سمیت افغانستان پر یلغار کیا ۔ افغانی وقتی طور پر پیچھے ہٹ گئے کیونکہ وہ جنگی حربے سمجھتے تھے۔اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اس سے اُن کا بہت زیادہ نقصان کا اندیشہ تھا اور مطلوبہ نتائج بھی برآمد نہ کرسکتے، امریکہ بھی ان کے جال میں نہ پھنستا ۔ انھوں نے گوریلا کارروائیاں شروع کردیں اور جنگ کو طول دینے لگے،اس سے امریکہ اور ان کے حواری بری طرح پھنس گئے،اس جدل میںان کا بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہونے لگا، اس بیس سالہ جنگ میں امریکہ کے کھربوں ڈالرز خرچ ہوگئے ، آخر پاکستان اور قطر کی کاوشوں سے امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کا موقع ملا ۔ ان تمام واقعات اور حالات سے ثابت ہوتا ہے کہ جغرافیائی حالات کے باعث افغانستان میں کوئی بھی حملہ آورکامیاب نہیں ہو سکتا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے