کالم

حقیقت

زندگی تجربہ گاہ ہے انسان ہی انسان کے کام آتا ہے اور آپ نے تجربہ کیا ہوگا کہ کبھی کبھی انسان دوسرے انسان کے کام نہیں آتا بلکہ اسے نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ بدلہ لینے کو عقلمندی اور جائز سمجھتا ہے درگزر نہیں معاف کرنے کا حوصلہ نہیں سخت دل سخت مزاج اور کڑوی کسیلی باتیں کرنے کو بڑائی سمجھتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ درد دل کےلئے انسان کو پیدا کیا ورنہ عبادت تو فرشتے ازل سے ابد تک کر ہی رہے ہیں ۔ انسان میں کونسی بات ہے جو فرشتوں میں نہیںاگر وہ مخصوص صفت نہ ہو تو انسان انسانیت کے درجے پر نہیں رہتا ۔ ہر چیز جو کائنات کے اندر ہے اسکی اپنی صفات ہیں اور صفات میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے تضاد بھی ہو سکتا ہے یوں کہہ لیں رحم بھی ہو سکتا ہے اور غضب بھی ہو سکتا ہے ۔ یعنی ایک شے میں بیک وقت کئی صفات ہو سکتی ہیں غضب بھی رحم بھی دونوں صفات ایک ہی وقت میں روبہ عمل ہو سکتی ہیں۔مثلاً شاہین اپنی صفات میں رہ کر کبوتر پر جھپٹتا ہے تو یہ اسکی خوراک ہے یہ عمل ظلم محسوس ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں ہر صفت میں تضاد موجود ہے اس لیے صفات سے ذات کو پہچاننا مشکل ہوتا ہے کیونکہ صفات بدل جاتی ہیں مثلاً رات کا بھی اللہ ہے دن کا بھی وہی اللہ ہے خوشی دینے والی اور غم دینے والی ذات بھی وہی ہے صحت اور بیماری بھی اسی کی طرف سے ہے دکھ تکلیف اور راحت اسی ذات کی طرف سے ہے لہٰذا ذات کی پہچان صفات سے مشکل ہوتی ہے ۔ اگر حقیقت سمجھ آجائے تو صفات کا تضاد نہیں لگتا ۔ ذات کے جوہر کو سمجھنے کےلئے ایک صفت لے لیں مثلاً اللہ مالک ہے اور باقی تمام ملکیت تو پھر مالک کی اپنی مرضی کہ جس کے ساتھ جو سلوک کرے لہٰذا جہاں صفات مثبت اور منفی رحجان کی مظہر محسوس ہوتی ہیں وہاں انسان کا اپنی ذاتی سوچ کا دخل ہوتا ہے لگتا ہے ظلم ہو رہا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا اگر مالک کو مالک مان لیا تو پھر تعلق میں کمی نہیں ہونی چاہیے ہر حال میں تعلق میں کمی نہ ہو ذات کےساتھ تعلق اور اسکا احسا س ہر لمحے قائم رہنا چاہیے ۔ وابستگی میں سارے رموز سمجھ آجاتے ہیں اور اگر وابستگی میں کمی ہو تو پھر سارے پوشیدہ رموز ختم ہو جاتے ہیں اور ہر چیز پہچان سے باہر ہو جاتی ہے اگر ذات میں جوہر نہ ہو تو شے وہ شے نہیں رہتی مثلا لکڑی اگر جلے گی نہیں تو لکڑی نہیں محسوس ہوتی سانپ زہر نہ اگلے تو سانپ نہیں، زہر اسکا جوہر ہے ۔ شاہین ایک پرندہ ہے اگر اڑے نہیں تو شاہین نہیں اسکا ذاتی جوہر پرواز میں ہے ، گدھ کا سفر مردار کھانےمیں ہے اگر وہ اس صفت سے گریز کرے تو گدھ نہیں۔ بیوقوف تکبر نہ کرے تو بیوقوف نہیں ،اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کو اسکی صفت کے اندر رہن رکھ دیا ہے ۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ فلاں صاحب کو ہم نے دوست سمجھا تھا لیکن وہ چھپا ہوا دشمن نکلا گلہ شکوہ اور شکایت زبان سے ادا ہونا شروع ہو جاتے ہیں شکوہ اپنی ذات پر نہیں ہوتا جس نے صحیح تجزیہ نہ کیا۔ غور کریں وہ شخص جسکا آپ گلہ کر رہے ہیں وہی شخص ہے جسکو آپ دوست سمجھے اسکی ذات کا جوہر دوسرے کو نقصان پہنچانا ہے اگر اس صفت پر قابو پا لیا جائے تو شخصیت کا انداز بدل جاتا ہے مسلمان کا جو ہر عشق مصطفی ﷺ میں ہے اگر یہ جوہر قائم ہے تو مسلمان ہونا بھی قائم ہے اگر مسلمان سے یہ جوہر نکال دیا جائے تو وہ شخص وہ نہیں رہے گا انسان دولت مند ہو تب بھی انسان ہے، غریب ہے تب بھی انسان ہے دولت کی کمی بیشی سے فرق نہیں پڑتا ، کسی کے دنیاوی مرتبے سے فرق نہیں پڑتا لیکن اگر انسان میں انسانیت ، دردِ دل نہ ہو تو اسے آپ انسان نہیں کہہ سکتے وہ انسان فطرت میں کچھ اور ہے ۔ انسان کے ممتاز ہونے میں ایک صفت ہونی چاہیے وہ ہے کسی کا دکھ درد محسوس کرنا اور دوسرے شخص کے مشکل وقت میں کام آنا ۔ آجکل کی ٹریجڈی یہ ہے کہ انسان بے حسی کی چادر تانے ہوئے ہے ہم صبح اٹھتے ہیں اخبار پڑھا طرح طرح کی خبروں پر نظر دوڑائی اور اپنے اپنے شعبے کے اعتبار سے معمولات میں مصروف ہو گئے ہر شخص اپنے کام میں مصروف ہے توجہ اور جدوجہد دنیا کے مال کو اکٹھا کرنے میں لگی ہوئی ہے، لہٰذا درد دل ختم ہو گیا ہے یعنی احساس ختم ہو گیا ہے حبِ دنیا نے احساس کو ختم کر دیا ہے۔دنیا بنانے کی خواہش نے انسان کو بے حس کر دیا آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ ایک انسان خوش ہو کر کہےگا کہ فلاں بزرگ نے مجھے دعا دی اور کاروبار بہت اچھا چلنے لگ گیا ، ڈھیروں منافع آنے لگا اس نے اصل میں کیا کیا اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں سے مختلف ہتھکنڈوں سے دولت چھیننے لگ گیا دوسروں کو نقصان پہنچا کر خود راحت میں رہنا بے حسی کی بیماری ہی تو ہے احساس کا نہ ہونا دل کا ٹھوس ہو جانا ہی تو ہے یہ عذاب ہوتا ہے۔دعا یہ ہونی چاہیے کہ احساس سلامت رہے یہ اس وقت ممکن ہے جب وابستگی اللہ سے اور اسکے محبوبﷺ سے رہے ۔ فی زمانہ تو ہر ایک کی محبوب اسکی ذات ہی ہے وہ دوسروں کو اہمیت ہی نہیں دیتا لیکن جب تک معاشرے میں رہتے ہوئے تعلق دوسرے لوگوں سے نہ بنایا جائے تب تک زندگی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی دکھ اور تکلیف میں رنج اور خوشی میں ضروریات زندگی کی تکمیل میں انسان کو اپنے ہی جیسے دوسرے لوگوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ تنہا زندگی گزر نہیں سکتی دوسروںسے تعلق اور تعاون ناگزیر ہے علم کے ساتھ مشاہدہ اور پریکٹیکل تجربہ نہ ہو تو صحیح راستہ نہیں ملتا درد یا احساسکی دنیا اور ہے عبادت اپنی جگہ مستند لیکن اس عمل کےلئے تو فرشتے موجود تھے اللہ نے انسا ن کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ احساس کرنے والا ہو درد کو سمجھنے والا ہو انکی تکالیف یا مصائب کو تخلیق نہ کرے بلکہ محبت پیار اور درد مندی سے دوسروں کے کام آئے احساس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کا خیال کرنا اور اسے اپنی ذمہ داری سمجھنا ۔ عبادت فرشتہ صفت تو بنا سکتی ہے لیکن حقیقی انسان نہیں بنا سکتی انسان درد اور احساس سے بنتا ہے ۔ اس صفت کو ختم کرنے والی حب دنیا کے علاوہ اور کوئی شے نہیں جس شخص کو یہاں ٹھہرنے کی خواہش ہو اپنی دنیا کامیاب بنانے کی شدید ترین خواہش ہو اس شخص کو کامیاب ہونے کےلئے لازما بے حس ہونا پڑتا ہے اس لیے ہر انسان میں احساس ہونا چاہیے۔یہ صفت محبت اور باہمی احترام سے پیدا ہو سکتی ہے ۔ ایک شخص نے کہا موسم بہت خوشگوار ہے بڑا فائن ڈے ہے دوسرے شخص نے کہا میں جانتا ہوں پہلے شخص نے کہا پھر تم اتنے اداس کیوں ہو دوسرے نے کہا کہ اداس اس لیے ہوں کہ یہ موسم کب تک ایسا رہے گا ختم ہو جائے گا یہ صرف جملہ نہیں حقیقت ہے ، کب تک والا جملہ سمجھ آ جائے تو زندگی اجتماع میں گزارنا آسان ہو سکتی ہے ، فرد کی زندگی اصل میں انفرادی تو ہے لیکن اجتماعی زیادہ ہے سوچ کا انداز بدل جائے تو مزاج بھی تبدیل ہو جاتے ہیں عادت اور خصائل پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے دعا یہ ہونی چاہیے کہ اللہ درد مند انسان بنائے جو دوسروں کے کام بھی آتا ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے