جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے فرمایا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مقابلہ میدان کی حد تک ہے ، میں چاہتا ہوں کہ جو سیاسی سہولت بحیثیت سیاستدان مجھے ملے وہ سب کو حاصل ہونی چاہیے ، انہوں نے صد فیصد درست فرمایا کہ معاشی استحکام کےلئے سیاسی استحکام لازمی ہے ، اس کے بغیر ملک کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا ، ملک اب مزید کسی ایڈونچر یا مارشل لا کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں بھی مینڈیٹ حقیقی نہیں ہے ، ہماری پی ٹی آئی کے ساتھ مشاورت ہوئی ہے ،نئے انتخابات کےلئے پاکستان تحریک انصاف اسمبلیوں سے استعفوں پر آمادہ ہے اور خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کو بھی تیار ہے۔ بخدمت سربراہ جمعیت علمائے اسلام بصد تکریم و احترام یہ التماس ہے کہ اپنے حقوق اور سہولیات لینے کےلئے ہر سیاستدان کےلئے بھی تو یہ لازم و ملزوم ہے کہ اس کی سوچیں اور رویے خالصتا ًسیاسی ہی ہوں ، اپنی ذاتی انا ، ضد و بدتمیزی اور ھٹ دھرمی و غنڈہ گردی کو بھی کیسے سیاست کہا جا سکتا ہے ۔ کیا کیمروں کی آنکھ سے اور ٹی وی سکرینوں پر ساری دنیا نے یہ نہیں دیکھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور لیڈران جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاس لاہور کے اندر داخل ہو رہے ہیں ؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ وہاں امب لینے گئے تھے یا یادگار شہدا پر شمعیں روشن کرنے یا پھر پھول ڈالنے گئے تھے؟ اب سوچنا تو یہ ہوگا کہ یہ کون سی سوچیں ہیں اور یہ کس کی سوچ رویے ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے ورکرز اور رہنماں کو کور کمانڈر ہاو¿س اور اور جی ایچ کیو کے گیٹ تک بھی پہنچا ڈالا ۔ مصحفی غلام ہمدانی جی کے الفاظ میں :
تیرتھ سمجھ اس کو وہ گر اشنان کو آوے
اشکوں نے بہائے ہیں مرے گنگ زمیں پر
میرے خیال میں جیل یاترا کے بعد بھی بانی تحریک انصاف نے بالکل بھی کوئی اشنان نہیں فرمایا ہوگا اور نہ ہی ان کی پاکستان تحریک انصاف نے ہی ماضی سے یا ان مشکل ترین حالات سے کوئی سبق سیکھا ہے جو اسمبلی تحلیل کرنے اور استعفوں کےلئے ایک بار پھر تیار کھڑے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر علی گوہر اور پی ٹی آئی کے چند دیگر رہنماو¿ں نے بھی اس بات کی تردید تو فرمائی ہے لیکن میرے خیال میں مولانا فضل الرحمن ایک منجھے ہوئے بزرگ اسلامی سیاسی رہنما کے طور پر اس قدر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ تو نہیں کر سکتے لہٰذا ان کی بات پہ سوال کرنا بنتا ہے یقینا وہ جو بات کہہ رہے ہیں وہ سچائی پر مبنی ہے ۔ یاد فرمائیے جب ماضی میں چوھدری پرویز الہٰی سمیت متعدد سینئر رہنما بھی نالاں تھے تب بھی انہوںنے استعفوں کا اور اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کر ڈالا تھا محض ضد بازی اور انا پرستی کی تلوار چلاتے ہوئے اور پھر اس کے بعد جو ہوا وہ سب نے دیکھا ۔ یہ کیا سیاستیں ہیں کہ ایک سیاسی جماعت کا سربراہ اور مقبول سیاسی لیڈر جب سے قومی سیاست میں آیا ہے ایک ہی راگ الاپ رہا ہے کہ میں اسٹیبلشمنٹ ، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے تو بات کر سکتا ہوں لیکن کسی سیاسی جماعت سے مذاکرات نہیں کر سکتا ، کسی مخالف سیاسی جماعت کے سربراہ کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتا بلکہ ہاتھ تک بھی نہیں ملا سکتا ۔ گزشتہ دنوں بانی پی ٹی آئی نے ایک بار پھر اپنی سوچ کو دہرایا ہے اور اڈیالہ جیل راولپنڈی میں موجود صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر میری بیوی کو کچھ ہوا تو جن لوگوں کے میں نے نام لیے ہیں ان کو ہ نہیں چھوڑوں گا ، وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈا پور سے کہوں گا کہ وہ مزید سخت موقف اختیار کریں ، ملک میں تو پہلے سے ہی مارشل لا نافذ ہے ، حکومت کسی اور کے کنٹرول میں ہے ، یہ ایس آئی ایف سی کیا ہے۔؟ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون میں بالکل بھی کوئی فرق نہیں ہے درحقیقت یہ دونوں ایک ہی ہیں ، ہم تحریک عدم اعتماد سمیت کسی بھی مسئلہ پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سے بات نہیں کریں گے ، میں پیپلز پارٹی سے تب بات کروں اگر میں نے اقتدار میں آنا ہو تو ۔ کاش کوئی پی ٹی آئی کپتان کو سمجھائے اور بتلائے کہ لیڈر کا کام تڑیاں لگانا دھمکیاں دینا نہیں ہوتا بلکہ صبر و دانشمندی سے منزل پہ پہنچنا ہوتا ہوتا ہے اس کے علاوہ ایک سیاسی لیڈر کی منزل اقتدار کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کیونکہ اقتدار ملنے کے بعد ہی ایک حقیقی لیڈر اپنی فکر و فلسفہ نافذ فرما سکتا ہے ۔ شعیب بن عزیز کے الفاظ میں :
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
بھائی ! اگر اپ اقتدار میں ہی نہیں آنا چاہتے تو پھر یہ اتنا تردد کیوں اور یہ سارا قضیہ کیا ہے ، کیوں بیچ میں اٹکے ہوئے ہو بلکہ لٹکے ہوئے ہو اور ملک و قوم کو بھی لٹکا رکھا ہے ۔ وہ سیاست ہی کیا جس میں سیاستدان کہے کہ میں سیاستدانوں سے بات نہیں کروں گا ، بجلی کے بل پھاڑوں گا ، تھانوں پہ حملے ، پولیس افسر کو نہیں چھوڑوں گا ، خاتون جج کو دھمکیاں ، اگر میری بیوی کو کچھ ہوا تو نہیں چھوڑوں گا اور وغیرہ وغیرہ ۔ مرزا غالب جی کے الفاظ میں :
ابن مریم ہوا کرے کوئی
مرے دکھ کی دوا کرے کوئی
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
نہ جانے کیوں اس سب کے باوجود بھی میرے پاکستان کے بہت سے لوگ انہیں ایک آس اور سہارا سمجھتے ہیں ، ان سے اپنی امیدیں باندھے بیٹھے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عہد موجود کہ ان حالات میں کپتان ماضی کی مانند حماقت سے ہی نہیں بلکہ حکمت سے کام لیں ، چاہے کیسے بھی حالات ہوں کسی بھی سیاسی جماعت کےلئے قانون ہاتھ میں لینا اور ملکی اداروں پر حملے کرنا کسی طور پر بھی جائز نہیں ہو سکتا لہٰذا یہ ضروری ہو گیا ہے کہ آپ سانحہ 9مئی کے سلسلے میں ملک و قوم سے معافی مانگیں اور تحمل تدبر کے ساتھ مستقبل کےلئے مثبت سیاسی راستے نکالیں ۔ بقول اقبال :
نہ سمجھو گے تو مٹ جا گے پاکستان والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
کالم
حماقت سے نہیں حکمت سے کام لیں
- by web desk
- جولائی 25, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 273 Views
- 12 مہینے ago