کہنے کو آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ کو 10سال بیت گے مگر اس ہولناک واقعے کے زخم شہید ہونےوالے بچوں کے والدین ہی بلکہ ہر پاکستانی کے دل ودماغ پرمحسوس کیے جاسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 16دسمبر 2014کا دن پاکستانی قوم کبھی نہیں بھولے گی جب چھ دہشت گرد آرمی پبلک سکول پشاور کی دیوار پھلانگ کر یوں داخل ہوئے کہ انسانیت کے مجرم بن گے، مذکورہ سانحہ میں 147افراد شہید اور زخمی ہوئے جن میں بڑی تعداد سکول کے بچوں کی تھی ، اس ہولناک واقعے میں علم کی پیاس بجھانے کےلئے آنےوالے بچوں سمیت اساتذہ نے بھی جام شہادت نوش کیا، بعد ازاں سیکورٹی فورسز نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے چھ خودکش حملہ آوروں کو جہنم رسید کیا ۔اس لڑائی میں قانون نافذ کرنےوالے اداروں کے دو افسران سمیت 9سیکورٹی اہلکار زخمی ہوئے ، یقینا یہ افسوسناک ہے کہ مملکت خداداد پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت بدستور موجود ہے ، آج بھی ہمارے ہاں خبیر تا کراچی سیاسی ، مذہبی اور لسانی بنیادوں پر کشت وخون کے واقعات رونما ہورہے ہیں، اس پس منظر میں عام پاکستانی کے عزم وحوصلہ کی داد دینی چاہے کہ قتل وغارت گری کے باوجود وہ آج بھی پوری قوت سے انتہاپسندی کے خلاف کھڑا ہے ، سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا ، اس اہم دستاویز میں حکومت اور اپوزیشن ہی نہیں بلکہ سیکورٹی اداروں کی جانب سے بھی ٹھوس تجاویز پیش کی گیں ، یہاں یہ پوچھنا کسی طور پر غیرمناسب نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینے اور اس پر عملدرآمد کے باوجود دہشت گردی کے عفریت پر آخر کیونکر قابو نہیں پایا جاسکا، دراصل اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاں پالیسوں میں تسلسل کا فقدان ہے ،سچ یہ ہے کہ اکثر وبیشتر یوں بھی ہوا کہ جب حکومت تبدیل ہوئی تو پالیسی بھی تبدیل کردی گی ، ایک تاثر یہ ہے کہ ارباب اختیار دہشت گردوں کی نفسیات ان کے عزائم اور ان کے علاقائی اور عالمی ایجنڈے کا پوری طرح ادراک کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ، یعنی ہم دہشت گردوں کے بیانیہ کی وجوہات اور اس کے درپردہ کارفرما عوامل کو نظرانداز کرنے کے مرتکب ہوتے رہے ، سوچنا چاہے کہ دہائیاں گزرے جانے کے باوجود مملکت خداداد میں دہشت گردی کے ناسور کا مکمل خاتمہ کیونکر نہ ہوسکا ، ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ طویل عرصہ تک ہمارے ہاں یہ تاثر رہا کہ انتہاپسندی کے خاتمہ میں سیاسی اور عسکری قیادت میں اتفاق رائے موجود نہیں ،مثلاً پاکستان تحریک انصاف کے دور اقتدار میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کالعدم تحریک طالبان کو جس قسم کی رعایتیں دینے پر آمادگی ظاہر کرتی رہی وہ تاریخ کا حصہ ہے ، اب دہشت گردی کے خلاف ناکامیوں کی فہرست پراگر طائرانہ نظر دوڈائی جائے تو اس میں نمایاں ترین عنصر ہماری غیر سنجیدگی کہی جاسکتی ہے ، مثلا ماضی کی حکومتوں میں ایسے نمایاں افراد موجود رہے جو دہشت گردوں بارے نرم گوشہ رکھتے تھے ، اس قسم کے لوگوں میں یہ احساس پایا جاتا تھا کہ طالبان سے گفت وشنید کرکے انھیں قومی دھارے میں شامل کیا جاسکتا ہے ، قومی سیاست پر نگاہ رکھنے والے کسی فرد کیلئے یہ بات انہونی نہیں کہ ماضی میں ہمارے ذمہ دار افراد میں یہ خوش فہمی پروان چڑھتی رہی کہ جب طالبان کابل میں برسراقتدار آئیں گے تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا مثالی دور شروع ہوگا مگر ہم جانتے ہیں کہ باجوہ ایسا نہ ہوسکا، پاکستان میں دہشت گردی کی بنیادی وجہ ماضی میں افغانستان سے متعلق اختیار کی جانےوالی پالیساں بھی ہیں جنھیں تاریخی حقائق کو نظر انداز کرکے ترتیب دیا گیا ، مقام شکر ہے کہ آج ہماری سیاسی اور عسکری قیادت دہشت گردی اور انتہاپسندی کو جڑسے اکھاڈنے کےلئے پرعزم ہے۔ اعلیٰ ترین سطح پر یہ فیصلہ کیا جاچکا کہ انتہاپسندی سے پاک ملک کے بغیر تعمیر وترقی کا ہرخواب ادھوار ہے، شبہازشریف حکومت دل وجان سے سمجھتی ہے کہ آئین اور قانون کے خلاف مسلح جدوجہد کرنےوالے کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں، خود وزیر اعظم پاکستان ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے کہ اگر ہم نے تعمیر وترقی کی منازل طے کرنی ہیں تو پھر قیام امن پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا ، مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی حکومت کی پالیسی ہے کہ ایک طرف افغانستان سمیت سب ہی ہمسایہ ملکوں سے خوشگوار اور دیرپا تعلقات کو فروغ دیا جائے تو وہی پاکستان کے قومی مفاد پر کسی قسم کے سمجھوتے سے دور رہا جائے ، موجودہ علاقائی اور عالمی صورتحال پر طائرانہ نظر یہ بتانے کےلئے بہت کافی ہے کہ آج پاکستان کو شدید خطرات لاحق ہیں ،بلاشبہ ہر چیلنج میں بہتری کا امکان ہوا کرتا ہے لہٰذا پاکستان میں دہشت گردی کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنی خامیوں سے آگاہ ہورہے ہیں، گزرے ماہ وسال کے برعکس آج مسلم لیگ ن کی حکومت یقینا زمینی حقائق کی روشنی میں پالیساں ترتیب دے رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ سانحہ کو دس سال گزر جانے کے باوجود وزیر اعظم پاکستان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ آرمی پبلک سکول پشاور جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونے دیا جائے گا، شبہازشریف چٹان کی طرح یہ یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کو مذہبی،لسانی اور سیاسی دہشت گردی سے پاک کرکے ہی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے ۔