انتخابات سر پر آ چکے ہیں۔ موسم کی سردی ، انتخابی ماحول اور ووٹروں کے مزاج کی سرد مہری دونوں عروج پر ہیں۔ الیکشن کمیشن نامی ادارے نے سارے انتظامات مکمل کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ایک بڑے ریس کورس میں گھوڑے اپنے جوکیوں سمیت تیار اور چوکس کھڑے ہیں ۔ہر گھوڑے پر جوا کھیلنے اور رقم لگانے والے بھی اپنی بے چینی کو چھپانے کی ناکام کوشش کے ساتھ اپنی بظاہر مضبوط نظر آنے والی کرسیوں پر پہلو بدل رہے ہیں۔ستم ظریف کے سوالات اور خیالات مختلف اور متنوع ہیں۔وہ پوچھ رہا ہے کہ اگر الیکشن کا الا دھک رہا ہے تو پھر اس کی گرمی کیوں محسوس نہیں ہو رہی ؟ اس الا کے شعلے روشنی پیدا کیوں نہیں کر رہے ؟ دھواں کیوں نہیں اٹھ رہا؟ میں نے اس پرجوش پاکستانی کو بتایا ہے کہ اب پاکستان کے باکمال سائنسدانوں نے اپنی جدید ترین تحقیق کے نتیجے میں ایسی ایجادات کر رکھی ہیں ،جن کے بعد پاکستان میں اب ہر دھواں آگ کی علامت نہیں بنے گا ، اب ہر آگ حدت پیدا نہیں کرے گی، اب ہر شعلہ روشنی کا باعث نہیں بنے گا۔ لہذا اسی اصول کے تحت اب ہنگامہ خیز انتخابات بھی ماضی بعید کا قصہ ہوگئے ہیں ۔اب انتخابات کی تیاری ، انعقاد، ووٹنگ، ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان ، سب کچھ بالکل خاموش فلموں کی طرح سے ہوا کرے گا۔ستم ظریف نے چونکہ میٹرک تک بھی سائنس نہیں پڑھ رکھی ،اس لیے یہ خالص علمی باتیں سن کر اس کا منہ کھل گیا۔اسی کھلے منہ کے ساتھ اس نے استفسار کیا کہ کیا یہ سائنس مزید ترقی بھی کرے گی؟ میں نے اسے بتایا کہ علمی ترقی کبھی بھی ایک جگہ پر رکتی نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں چونکہ طبیعیات اور مابعد الطبیعیات کے ماہرین ایک ہی تجربہ گاہ میں مصروف تحقیق رہتے ہیں ،تو سننے میں یہ آ رہا ہے کہ ان کی ریسرچ بعض سمتوں میں انجانی حدود کی طرف روانہ ہو چکی ہے ۔نہ صرف یہ بلکہ اس تحقیقی پیش رفت نے مکان اور زمان کو بھی باہم الجھا کر رکھ دیا ہے ۔ ایک سائنسی تجزیہ کار ہنستے ہوئے بتا رہا تھا کہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے مفصل نتائج جدید مابعدالطبیعیاتی کمپیوٹروں کی اسکرین پر ابھی سے چمک رہے ہیں ۔یہ سارے مابعد الطبیعیاتی کمپیوٹرز وقت سے دو چار قدم آگے کی ایک حیرت انگیز ایجاد خیال کئے جا سکتے ہیں ۔میری گفتگو سن کر ستم ظریف کچھ مایوس سا ہو گیا۔ کہنے لگا کہ آپ نے جو کچھ بھی کہنے کی کوشش کی ہے ،وہ ساری باتیں ناقابل یقین اور قدرے پاگل پن کی کیفیات کی طرف اشارہ کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ آپ کی حب الوطنی پر بھی سوال اٹھ سکتا ہے۔میں نے محسوس کیا کہ ہمارے سائنسدانوں کے ارفع علم کو سننا اور سمجھنا ستم ظریف کی ذہنی سطح کے لوگوں کے لیے مشکل ہے۔ لہذا بات کو یہیں پر سمیٹ لینا چاہیئے۔میں نے پکا سا منہ بنا کر کہنا شروع کیا کہ دیکھو ستم ظریف!میں ایک محب وطن اور پرامن ہونے کے پردے میں ایک ڈرپوک سا شہری ہوں ۔ سنا ہے کہ میرے شہر کی گاڑیوں کے پیچھے جابجا لکھا ہوتا ہے کہ ؛ مجھے دعوت اسلامی سے پیار ہے ، دیکھ مگر پیار سے ، جلنے والے کا منہ کالا، آخری حل صرف کاجل، ہارن دے کر پاس کریں ، ماں کی دعا جنت کی ہوا ، سپہ سالار زندہ باد، ، گلی گلی میں شور ہے سارا ٹبر چور ہے ، ظالم دنیا نے پھر سے دلہن بنا دیا ،مدنی تکیہ زندہ باد، اور یہ جو شدید سردی ہے،اس سے مجھے ہمدردی ہے وغیرہ وغیرہ ۔لیکن نظر کمزور ہونے کی وجہ سے میں صحیح طریقے سے یہ سب کچھ پڑھ نہیں پاتا ۔یہی وجہ ہے کہ میں ہر طرح کی گمراہی سے بچا ہوا ہوں۔ میں ان لوگوں میں شامل نہیں ہوں جو اپنے ووٹ کی طاقت پر گھمنڈ کرتے ہیں ۔اور اس گمان میں مبتلا رہتے ہیں کہ شاید انہی کے ووٹ سے قوم کی حالت بدل سکتی ہے ۔ جبکہ پاکستان کے حوالے سے یہ تاثر بالکل بھی درست نہیں۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کا ہر ووٹر یہ بات اچھی طرح سے جانتا اور سمجھتا بھی ہے ۔اسی سمجھ نے پاکستانی ووٹروں میں وہ اعتماد پیدا نہیں ہونے دیا ،جو الیکشن کے عمل میں ووٹ کی مرکزیت اور اہمیت پیدا کرتی ہے۔ عام و خاص سبھی لوگ جانتے ہیں کہ الیکشن کے نتائج کا تعلق ووٹوں کی تعداد اور وقوع پر نہیں ہوتا ، نتائج کا تعلق عالم غیب کے ساتھ ہوتا ہے ۔اور غیب کا علم ہنوز ارزاں تو نہیں ،لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مملکت خداد کے شہری اپنی فہم و فراست اور سابقہ تجربات کی روشنی میں اس قدر واقف و آگاہ ضرور ہوتے ہیں ، کہ اکثر پولنگ کا عمل مکمل ہو جانے کے بعد انہیں کسی انکشاف کی توقع نہیں ہوتی ، اور وہ کمزور ڈرامے کی بے زاری ختم کرنے کے لیے اپنا کوئی پسندید اسٹیج ڈرامہ یا فلم دیکھنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ یہ شاید ملکی تاریخ کے پہلے انتخابات ہیں ، جن میں عامتہ الناس یعنی ووٹ دینے والوں سے خوف کھایا جا رہا ہے ۔سیاسی جماعتیں تاریخ کی بدترین بے عملی گزر رہی ہیں ۔سیاسی راہنماو¿ں کے چہرے کے رنگ اڑے ہوئے ہیں، ان کی بے بس مسکراہٹ اور بے رس تقریریں معنی و مفہوم سے عاری ہیں۔یہ تو حال کی باتیں ہیں ،ویسے بھی دیکھا یہ گیا ہے کہ ملک پر حکومت کرنے والوںکے فیصلے اور اقدامات بیرونی طاقتوں کی فرمائش اور احکام کی تعمیل پر مبنی ہوا کرتے ہیں۔عوام کو ہی کچھ کرنا ہو گا، ستم ظریف درجہ اول کا بہانہ جو ہے ،کہتا ہے اتنی شدید سردی میں بغاوت کرنے سے ٹھنڈ لگنے کا امکان ہے۔پھر تیاری بھی مشکل ہے۔تیاری کا آغاز نہانے سے ہوتا ہے ،گیس کی سپلائی میں تعطل ہے ، ٹھنڈے پانی سے نہانے سے کسی انقلاب کی ضرورت ویسے ہی باقی نہیں رہتی ۔تو اس موسم میں تیاری مشکل ہے۔البتہ ایک بات ستم ظریف نے اچھی کہی،کہتا ہے کہ تیاری سے زیادہ ضروری آمادگی ہے۔اس کے لیے لوگوں کی ذہن سازی کرنی ہو گی۔پھر ذہن سازی کی شرط اول بھی عجیب و غریب سی ہے ،یعنی ذہن کا موجود ہونا۔اب اس مسلے کا کیا کریں ؟ بہتر یہی ہے کہ سردی اور سرد مہری کا شکار انتخابات کو ان کے حال اور مآل پر چھوڑ کر کوئی اچھا سا گیت سنا جائے، ویسے بھی اس انتخابی مہم کا دارومدار اور انحصار گیتوں پر ہی رہا ہے۔