کالم

شہر اقبال کی باتیں

سیالکوٹ کی دھرتی میں مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے جنم لیا ، یہی شہر سابق بھارتی وزیراعظم گلزاری لال نندہ کی جنم بھومی ہے وہ جولائی 1898میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم یہیں سے پائی ، ایف سی کالج لاہور سے اقتصادیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انہیں بابائے اقتصادیات بھی کہا جاتا تھا۔ وہ ممبئی اور احمد آباد کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے ۔سیاست میں آئے تو وزیر خارجہ اور ڈپٹی چیئر مین پلاننگ کمیشن رہے ۔کئی بار لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوئے ، آخر کار وزارت عظمیٰ کے منصب پر جا پہنچے۔ انکی زندگی سادگی سے گزری تھی۔ دنیا بھر میں بہت کم ایسے وزیراعظم ہوئے ہیں جو کرائے کے مکان میں رہے ہوں ۔ یہاں توکسی نے ذاتی تجوریاں بھریں، کسی نے گھڑیاں بیچیں ، کسی نے دوسرے ممالک میں بلڈنگ خریدیں، کسی نے کرنسی ایکسپورٹ کی مگر سیالکوٹ سے متعلق بھارتی وزیراعظم نے اپنا مقام علیحدہ بنایا ۔ یہ ایک نہیں دو بار بھارت کے وزیراعظم رہے ۔ جواہر لال نہرو کے بعد 1964میں وزیراعظم بنے ،1966میں لال بہادر شاستری کے بعد وزیراعظم بنے ۔ جنوری 1998میں احمد آباد میں 99کی عمر میں جہاں فانی سے کوچ کیا ۔ رخصت ہوتے وقت کسی قسم کا کوئی بنک بیلنس کوئی جائیداد کوئی ذاتی گھر تک نہیں تھا۔ پاکستان کی طرح بھارت میں حد درجے کرپشن ہے تاہم جوڈیشری کا نظام ہم سے بہت بہتر ہے ۔ وہاں آج بھی گلزاری لال نند جیسے کردار مل سکتے ہیں ۔ مگر ہمارے یہاں نہیں ۔ بھارت میں کئی ایسے سیاستدان آج بھی موجود ہیں جن کے اثاثے کچھ نہیں مگر اسطرح کی عمدہ مثال ہمارے ہاں دیکھنا نا ممکن ہے۔ سیالکوٹی وزیراعظم نوے برس کے ہوئے تو ان کے پاس مکان کا کرایہ ادا کرنے کو پیسہ نہیں تھے ۔ یہ مالک مکان کو پانچ ماہ کا کرایہ نہ دے پائے ۔ مالک مکان ایک روز غصے میں آیا اور سامان اٹھا کر گھر سے باہر پھنک دیا، وہ سامان لےکر فٹ پاتھ پر آگئے۔ کچھ محلے والوں نے مالک مکان سے التجا کی ۔ کرایہ خود دینے کا وعدہ کیاتو انہیں گھر میں رہنے کی اجازت ملی ۔اسی روز ایک رپوٹر وہاں سے گزرا اسے بزرگ کو دیکھ کر ترس آیا، اس نے بزرگ شخصیت کی سامان سمیت تصویر بنائی اس کے بعد سٹوری بڑے اخبار میں چھاپ دی۔سٹوری کیا چھپی قیامت صغری برپا ہوگئی ۔ خبر کے بعد وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کو معلوم ہوا کہ گلزاری لال نند ہ کس مفلسی میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ بعد ازاں سابق وزیر اعظم کو سرکاری مکان اور ماہانہ وظیفہ دینے کی افر دی مگر اپ نے پانچ سو کی رقم لینے پر راضی ہوے ۔ اس قلیل سی رقم سے نئی زندگی شروع ہوئی ۔ مالک مکان کو جب علم ہوا کہ میرا کرایہ دار گلزاری لال نندہ ہے تو اس نے معافی مانگی ۔ جب تک گلزاری لال نندہ زندہ رہے اسی کرائے کے مکان میں رہے ۔ ہمارے ایک اور پڑوسی ملک افغانستان کے صدر سردار دودخان جب صدر تھے تو ان کو اطلاع ملی کہ کابل میں ٹانگے کا کرایہ بہت بڑھ گیا ہے ۔ سردار داد خان نے عام لباس پہنا کوچوان کے پاس پہنچ کر پوچھا کہ مجھے پل چرخی جانا ہے تم کتنا کرایہ لو گے؟ کوچوان نے سرداد کو پہچانا نہ تھا۔ بولا میں سرکاری نرخ پر نہیں جانگا ۔سردار دادو خان نے کہا بیس لے لو۔کوچوان بولا اور اوپر جا ۔داد خان نے کہا پچیس ۔کوچوان بولا اور اوپر جا ! سردار داد خان نے کہا تیس ۔ کوچوان نے کہا تھوڑا اور اوپر جا، سردار داد خان نے کہا پینتیس ۔ کوچوان نے کہا مارو تالی ….(منظور)سردار داد تانگے پر سوار ہو گئے ۔تانگے والے سردار داد خان کی طرف دیکھ کر پوچھا کہ تم اشتہاری ہو کہا اوپر جا ۔کوچوان نے کہا فوجی ہو ۔ کہا اور اوپر جا کوچوان نے کہا مارشل ہو ؟کہا اور اوپر جا ، کوچوان نے پوچھا تم کہیں سردارداود خان تو نہیں ہو ۔سردار صاحب نے کہا جی(دے تالی) ! کوچوان کا رنگ اڑ گیا ،کوچوان نے کہا مجھے جیل بھیجو گے ؟کہا اور اوپر جا ! جلا وطن کرو گے ،داد نے کہا اور اوپر!کوچوان بولا پھانسی چڑھاﺅ گے ۔سردار داد خان کہا دے تالی ….یہ دونوں واقعات حسب حال یاد آگئے۔ ہمارے حکمران اور وزرا اس طرح حالات کا خود جائزہ لیتے تو مہنگائی اور کرپشن کا خاتمہ ہو چکا ہوتا لیکن حاکمران حکومت تالیاں صرف اپنی ستائش اور اپنے فائدے کیلئے بجواتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے