پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم پوائنٹ طورخم بارڈرکراسنگ پر باہمی تجارت اور کاروباری سرگرمیاں گزشتہ تین روز سے بندہیں۔پاکستان کے اہم شمال مغربی صوبہ خیبرپختونخوا اور افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے میں واقع طورخم بارڈر کراسنگ دونوں برادر اسلامی اورپڑوسی ملکوں کے درمیان سفر کرنے والوں اور تجارت کے لیے انتہائی اہم ہے،جو اکثر کشیدگی کی وجہ سے بندش کا شکار رہتا ہے۔غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی کے ساتھ پاکستان نے یہ بھی علان کیا تھا کہ آئندہ یہاں تجارتی سرگرمیوں کے لئے دستاویزات اور ویزہ کی بھی پابندی ہو گی،اب اس پرعمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ سرحد پار کرنے والی کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے لیے دستاویز کے ضابطوں کے حوالے سے تازہ ترین تنازع کی وجہ سے یہ کراسنگ جمعہ کی رات سے تجارت کے لیے بند ہے۔ حالیہ مہینوں میں اسلام آباد کی جانب سے پاکستان میں غیر قانونی طورپر مقیم افغانوں کے خلاف گزشتہ سال بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کرنے اور ملک میں داخل ہونے والے افغانوں کےلئے دستاویزات کی شرا ئط کو سخت کرنے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان گزرگاہیں عارضی طورپر بند ہوتی رہی ہیں۔ تازہ بندش بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،تاہم سرحد کے دونوں طرف پیدل چلنے والوں کی نقل و حرکت بلا تعطل جاری ہے جو یقینی طور پر خوش آئند امر ہے ۔یہ بندش افغان ٹرک ڈرائیوروں اور ان کے معاونین کو پاسپورٹ اورویزا دستاویزات کے بغیر ملک میں داخل ہونے پر پابندی عائد ہے۔یہاں بنیادی جو اہم مسئلہ پیدا ہوا ہے وہ تاجر برادری پریشان ہے ، دونوں طرف کے تاجروں کا کہنا ہے کہ کراسنگ بند ہونے کی وجہ سے انہیں کافی نقصان ہو رہا ہے۔اس وقت تازہ صورتحال یہ ہے کہ کراسنگ بند ہونے کی وجہ سے سرحد کے دونوں طرف گاڑیوں کی طویل قطاریں کھڑی ہوگئی ہیں اور موسم بھی شدید سرد ہے، ڈرائیور سرحد کھلنے کے منتظر ہیں۔ طورخم بارڈر پر تعینات افغان طالبان حکام نے بھی تمام پاکستانی ٹرک ڈرائیوروں کو اپنے ملک میں داخلے سے منع کردیا ہے۔ سی طرح ادھر کرم میں خرلاچی بارڈر کراسنگ پر دوطرفہ تجارت اس وقت تعطل کا شکار ہوگئی جب افغان حکام نے اتوار کی صبح پاکستانی ڈرائیوروں کو خرلاچی میں اپنے ملک میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔اس سختی کے پیچھے دہشت گردی ہے ،جس کی وجہ سے پاکستان کو یہ قدم اٹھانا پڑا ہے، پاکستان افغانستان میں مبینہ طورپر پناہ لینے والے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ طالبان حکومت اس بات کا تو بار بار دہراتی ہے کہ وہ افغان سرزمین کو پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، تاہم اب تک افغان حکومت نے کوئی موثر کارروائی نہیں کی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات حالیہ مہینوں میں سخت کشیدہ رہے ہیں۔اس طرح کی کشیدگی میں دونوں ملکوں کی سرحدوں پر تعینات سکیورٹی جوانوں کے درمیان مسلح تصادم کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔لہٰذ اس معاملے کو مل بیٹھ کرحل کرنا ضروری ہے۔ افغان حکام پاکستان کے اس مطالبہ پرٹھنڈے دل سے غور فرمائیں اور انا اور چشم پوشی کا یہ سلسلہ بند کرانا چاہیے۔ پاکستان پر افغانستان سے حملے کرنے والے عسکریت پسندوں سے اسلام آباد کی زیادہ تر مرادٹی ٹی پی کے دہشت گردوں سے ہوتی ہے، جن میں سے بہت سے اب افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد 2600 کلومیٹرطویل ہے اور اس سرحد سے جڑے دوطرفہ تنازعات عشروں سے دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین کشیدگی کی وجہ بنتے رہتے ہیں۔افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کےلئے افغان طالبان کےساتھ امریکہ نے دوحا میں مذاکرات کے وقت بہت سی شرائط طے پائیں تھی جن میں دیگر شرائط کے ساتھ ایک شق یہ بھی تھی کہ افغانستان میں کسی میں تنظیم یا انفرادی طور کسی کو افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی یا تشدد کےلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ افغان طالبان القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کریں گے تاکہ ان کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے،لیکن بدقسمتی سے افغان حکام اس معاہدے کی شرائط سے منحرف ہو رہا ہے،جس میں پاکستان کا مرکزی کردار رہا،اور افغان طالبان کی ھکل کر حمایت کی۔
نگران حکومت عوام کے حال پررحم کرے
بجلی صارفین کے لئے ایک اور بری خبر ہے کہ بجلی 5روپے 62پیسے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان ہے۔بجلی کی قیمت میں اضافہ دسمبر کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مانگا گیا ہے۔ سی پی پی اے کی درخواست پر نیپرا 31جنوری کوسماعت کرےگی۔سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے مطابق دسمبر میں 7ارب 41کروڑ 80 لاکھ یونٹس بجلی پیدا کی گئی جس میں پانی سے 24.06فیصد جبکہ مقامی کوئلے سے 16.95فیصد اور درآمدی کوئلے سے4.97 فیصد بجلی پیدا کی گئی۔دسمبر میں مہنگے فرنس آئل سے 2.18فیصد بجلی پیدا کی گئی، مقامی گیس سے 10.69فیصد اور درآمدی ایل این جی سے 16.41فیصد بجلی پیدا کی گئی۔اسی طرح جوہری ایندھن سے 18.95فیصد بجلی پیدا کی گئی۔حیرت کی بات ہے کہ حکومت آئے روز بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافہ کررہی ہے ۔ موجودہ صورتحال سے ایسا لگ رہاہے کہ نگران حکومت عوام میں ریاست کیخلاف بدگمانی کر رہی ہے۔ اصل میں ملک کے معاشی مسائل کی جڑ اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی بھاری مراعات و سہولیات ہیں جن میں کمی لانے پر کوئی توجہ ہرگز نہیں دی جارہی اور اس کی وجہ اس ملک کی اشرافیہ ہے جس نے ملک کو اپنے شکنجے میں لیا ہواہے ۔ عوام کے پاس تو پھر ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ سول نافرمانی کی تحریک شروع کردیں اور اشرافیہ کو باور کرائیں کہ وہ غلامی کا بوجھ مزید نہیں برداشت کرسکتے۔ یہ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے کہ ایک طرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہورہی ہے اور دوسری طرف نگران حکومت فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کے بلوں میں اضافہ کررہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ گزشتہ مہینوں کے دوران پٹرول کے نرخوں میں جتنی کمی ہوئی ہے اس کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں کمی کر کے عوام کو ریلیف فراہم کیاجاتا۔ حکومت ان ظالمانہ ہتھکنڈوں سے گریز کرے بصورتِ دیگر اسے سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔دوسری جانب آزاد کشمیر کو سستی بجلی2.59روپے فی یونٹ فراہم کرنے پر حکومت کو سالانہ 50ارب روپے نقصان کا سامنا ہے ۔ جسے اب زیادہ برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کی جگہ حکومت آزاد جموں و کشمیر کو پاکستان میں42روپے فی یونٹ کے مقابلے 22روپے فی یونٹ بجلی فراہمی کی پیشکش کی گئی ہے ۔ جسے وزیراعظم آزاد کشمیر نے انکار کردیا ہے ۔ وہ2.59روپے فی یونٹ بجلی کی فراہمی کوجاری رکھنا چاہتے ہیں ۔ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر کو56ارب روپے کی بجلی فراہمی کے مقابلے میں حکومت آزاد کشمیر 6ارب روپے ادا کررہی ہے ۔اس طرح وفاقی حکومت کو سالانہ 50ارب روپے خسارے کا سامنا ہے ۔ جس کا مزید متحمل نہیں ہوا جا سکتا ۔ آزاد کشمیر کی حکومت کا موقف ہے کہ منگلا ڈیم اور نیلم ، جہلم پر وجیکٹ سمیت تمام ہائیڈروپاور منصوبے آزاد کشمیر میں واقع ہیں اور 2.59 روپے فی یونٹ کریں میں اپنے حصے کی بجلی کے مستحق ہیں ۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہائیڈرو پاور پر وجیکٹس سے4ماہ بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے ۔ با قی8ماہ تھر مل پاور پر انحصار بنا ہے لیکن حکومت آزاد کشمیر 2.59روپے فی یونٹ ادائیگی پر ہی مضر ہے۔ اگر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کاسلسلہ اسی طرح جاری رہاتو اس کا خمیازہ نہ صرف عوام کو بدترین مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑسکتاہے بلکہ آنیوالی حکومت کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اگر مہنگائی کا خاتمہ کرنا ہے تواس پر فوری توجہ دیناہوگی جس میں اہم ترین بجلی گیس کی قیمتیںہیں جنہیں کم ترین سطح پر لانے کی ضرورت ہے ۔ ادھرپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا گیا۔ پٹرول کی قیمت میں 8 روپے فی لیٹر کمی کی گئی ہے۔پٹرول کی نئی قیمت 259 روپے 34 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے، جبکہ ڈیزل کی قیمت 276 روپے 21 پیسے فی لیٹر برقرار رکھی گئی ہے۔مٹی کے تیل کی قیمت میں1روپے97 پیسے فی لیٹرکمی کردی گئی۔لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 92 پیسے کمی کی گئی۔ پٹرول کی نئی قیمت کا اطلاق نافذالعمل ہے۔ نگران حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات میں عوام کو ریلیف دیا گیا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچناچاہیے۔
اداریہ
کالم
طورخم بارڈر پر تجارت کی بندش
- by web desk
- جنوری 17, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1698 Views
- 12 مہینے ago