کالم

طیب اردگان مسلسل گیارہویں مرتبہ صدر منتخب

riaz chu

اتوار کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے راو¿نڈ میں صدر رجب طیب اردگان کو ان کے سیکولر حریف کمال قلیچ داراوغلو پر برتری حاصل ہوگئی ہے۔ صدر اردگان اپنی دو دہائیوں سے جاری مسلسل حکمرانی کو 2028 تک توسیع دیں گے۔ 96 فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد صدر اردگان کو 52.3 فیصد ووٹ پڑے ہیں جب کہ ان کے حریف کمال قلیچ داراوگلو 47.7 فیصد ووٹ حاصل کر پائے ہیں۔صدر اردگان نے 2 کروڑ 68 لاکھ37 ہزار 84 ووٹ لیے ہیں جبکہ اپوزیشن امیدوار کمال قلیچ دار اوغلو 2 کروڑ 46 لاکھ 54 ہزار 839 ووٹ لیے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں ٹرن آو¿ٹ 85 فیصد سے زائد رہا۔ اوورسیز ووٹوں کی گنتی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ طیب اردگان نے 1992 سے کبھی نہ ہارنے کا ریکارڈ برقرار رکھتے ہوئے مسلسل 11 واں الیکشن جیتا ہے ۔ صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد اردگان کی آق پارٹی کے حامیوں نے مختلف شہروں میں جشن منانا شروع کردیا ۔پولنگ کے بعد استنبول میں اپنے گھر کے باہر حامیوں سے خطاب میں صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا تھا ’میں ترکوں کا ملک پر ایک بار پھر پانچ سال کےلئے حکومت کرنے کی ذمہ داری دینے پر شکر گزار ہوں۔وزیراعظم شہباز شریف، فلسطین اور ہنگری کے وزرائے اعظم سمیت دنیا بھر سے سربراہان مملکت کی جانب سے اردگان کو جیت پر مبارکباد دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔وزیراعظم نے صدر اردگان کو ٹویٹ کیاکہ پیارے بھائی رجب طیب اردگان کو ایک بار پھر جمہوریہ ترکیہ کے صدر کا تاریخی انتخاب جیتنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ کا شمار چند ایسے عالمی رہنماو¿ں میں ہوتا ہے جن کی سیاست کی بنیاد عوام کی خدمت ہے۔ رجب مظلوم مسلمانوں کی طاقت اور ان کے حقوق کی ایک مضبوط آواز ہیں۔ صدارتی انتخاب میں ان کی فتح اور پارلیمانی انتخابات میں ان کی پارٹی کی کامیابی کئی طرح سے اہمیت کی حامل ہیں اور ان کی لیڈرشپ پر ترک عوام کے اعتماد اور یقین کو ظاہر کرتی ہے۔ ترکیہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات مزید آگے بڑھیں گے، میں ان کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنرشپ کو مزید گہرا اور دونوں اقوام کے بھائی چارے کو مزید تقویت دینے کا منتظر ہوں۔ نیٹو کے رکن ممالک میں سے سب سے طویل عرصے سے اقتدار میں رہنے والے رجب طیب اردگان نے 14 مئی کو اپنے تمام مخالفین کے اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے اپنے مخالف سیکولر امیدوار کمال قلیچ داراوگلو پر برتری حاصل کر لی تھی۔ قلیچ داراوگلو ایک مشترکہ سیاسی اتحاد کے امیدوار ہیں جس میں ترک صدر کے ناراض سابق اتحادیوں سمیت سیکولر قوم پرست اور دائیں بازو کے مذہبی قدامت پسند بھی شامل ہیں۔اپوزیشن کے حامیوں کے خیال میں یہ ترکی کو ایک ایسی ریاست میں بدلنے سے روکنے کا آخری موقع تھا جس میں طاقت کا منبع صرف ایک شخص ہو۔اردگان کو ان کے طرز سیاست کی وجہ سے ان کے مخالفین عثمانی سلطانوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں ووٹ ڈالنے کے بعد کمال قلیچ داراوگلو نے کہا تھا کہ ’میں اپنے تمام شہریوں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کی دعوت دیتا ہوں تاکہ اس آمرانہ حکومت سے نجات حاصل کرتے ہوئے ملک میں حقیقی آزادی اور جمہوریت آ سکے۔ اردگان کی پارٹی کو اسلام پسند کہا جاتا ہے جبکہ ’جمہوریت خلق پارٹی‘ کمال اتاترک کے فلسفہ کی امین ہے اور اشتراکی جمہوریت کے نظریہ پر کاربند ہے۔ اس وقت ترکی کی کلیدی اپوزیشن پارٹی کا رول یہی پارٹی ادا کر رہی ہے۔ اردگان نے موجودہ عالمی منظرنامہ میں ترکی کو بڑی بلندی تک پہنچایا ہے اور بے شمار بحرانوں سے ترکی کو بچایا ہے۔ حالیہ زلزلہ کے بعد بھی آبادکاری کی جو کوششیں کی گئی ہیں وہ قابل تعریف رہی ہیں۔ اقتصادی معاملہ میں شرح مہنگائی میں اضافہ ضرور ہوا اور ترکی لیرہ میں بڑی گراوٹ آئی ہے لیکن اس کو بہتر کرنے کی کوشش بدستور جاری ہے اور اس کے اچھے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔ اردگان کا سب سے بڑا رول یہ رہا ہے کہ انہوں نے اپنی خارجہ پالیسیوں سے ترکی کو اس بلندی تک پہنچا دیا ہے جس کا تصور ان سے قبل تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ترکی کی اسلامی نشاة ثانیہ کے بانی محترم نجم الدین اربکان سابق وزیراعظم ترکی کی سربراہی میں اپنا سیاسی کیریئر شروع کرنے والے موجودہ صدر اپنی سیاسی بصیرت کے سبب نہ صرف چار مرتبہ اپنی پارٹی کو فتحیاب کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ عالمی سیاست میں ترکی کی عظمت رفتہ بحال کی ہے اور تمام تر سازشوں اور مخالفتوں کے باوجود ملک کو استحکام اور مضبوط معیشت دی ہے۔ گزشتہ دو دہائی کے دوران ترکی اور اس کے صدر رجب طیب اردگان دونوں اس طرح مربوط ہوگئے ہیں کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردگان ہی ترکی ہیں اور ترکی ہی اردگان ہیں۔صدر رجب طیب اردگان اسلام کی توانا آواز ہیں۔ صدارتی انتخاب میں ان کی فتح عالم اسلام کےلئے خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔ مظلوم مسلمانوں بالخصوص کشمیریوں کو اس سے تقویت ملے گی ۔ صدراردگان نے ہر عالمی فورم پرہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا۔ اہل کشمیر کی پشتیبانی کی۔ پاکستانی قوم نے ہمیشہ اس جذبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ پاکستان اور ترکی کے برادرانہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ ان شاءاللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے