کیا کریں ؟ یہاں لوگوں کی خوبی یہ بھی ہے کہ چوری کے مرغ کو بھی تکبیر پڑھ کر حلال کیا جاتا ہے۔ بزرگ کہا کرتے تھے حرام کا پیٹ بھر کے کھانے سے بہتر ہے حلال کا ایک نوالہ کھا لیا جائے”۔ مگر جس کو حرام کے کھانے کی عادت پڑجائے وہ پھر ساری عمر کھاتا ہی رہتا ہے جبکہ یہ درست ہے حرام کی کمائی سے گھر میں برکت اور سکون ختم کر دیتی ہے۔ بظاہر حرام کھانے والے کو اس کا اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ گناہوں کی دلدل میں دھنس رہا ہے۔ اس کی نیکیوں کا خاتمہ ہو رہا ہے اور برائیاں جنم لے رہی ہیں،اس میں اچھے برے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی گردن میں سریا زبان پر گالیاں آنکھوں میں بے حیائی عیاں ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ اس کے اندر کا انسان اور ضمیر مر چکے ہوتے ہیں۔ والدین کی عزت کرنا اور خونیں رشتوں کا احترام کرنا وہ بھول جاتا ہے۔ آج ہم آپ کو معاشرے میں پائے جانے والے ایک ایسے ہی کردار کے حامل بندے کی کہانی آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ اس کہانی سے سبق لیں ۔ کہا جاتا ہے یہ شخص شادی کے وقت کسٹم میں تھا مگر اس میں خواہش پولیس سروس میں جانے کی تھی۔ شادی ایسے گھرانے میں ہوئی جو شرافت اور جوڈیشری میں ایک اچھے اور بڑے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے اس بندے نے اپنی سیاسی وابستگی کی بنا کر کسٹم سے پولیس گروپ میں جانے میں کامیاب ہوگیا۔پھر کیا تھا حرام کھانے پر چل پڑا اور اسکے ساتھ پولیس گروپ میں سینیارٹی کا دعوے دار بن گیا۔ اب یہ چاہتا تھا کہ سسر اس معاملہ میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور مجھے سینیارٹی دلائیں۔وہ اس سلسلے میں بیگم پر مختلف طریقوں سے دباو¿ ڈالتا رہا۔ زندگی کا پہیہ چلتا رہا۔ اب اسکے تین بچے ہیں۔ جب دیکھا کہ بیوی کو حرام کھانا پسند نہیں اور حرام کھانے سے منع کرتی رہتی ہے تو اس نے بیوی کو ٹاچر دینا اور اس پر تشدد کرنا معمول بنا لیا۔مگر بیوی بچوں اور اپنے باپ کی عزت کی خاطر چپ رہی۔مگر حرام کی مخالفت کرتی رہی۔اس نے پھر بیوی کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ اس کی بیوی جو تین بچوں کی ماں بھی تھی اسکی پرائیویٹ تصویریں بنا کر میڈیا پر اپ لوڈ کر دیں۔ بیوی کی تصویریں میڈیا پر اپ لوڈ کرنے پر اسے شرم نہ آئی ۔یہ بھی نہ سوچا کہ بیوی میرے بچوں کی ماں بھی ہے۔ بچوں کی جنت بھی ہے لہذا میں ایسا نہ کروں مگر یہ باز نہ آیا ۔یہ بھی نہ سوچا لوگ کیا کہیں گے۔ بچے کیا سوچیں گے۔ لگتا یہی ہے حرام کی کمائی نے اس کے اندر کا انسان ختم کر دیا تھا اس میں رشتوں کی تمیز نہ رہی تھی۔ بیوی نے اس کے اپنی تصویریں اب لوڈ کرنے کے خلاف ایف آئی اے میں سائبر کرائم کا پرچہ درج کرادیا۔ اس پر یہ گرفتار ہوا اور جیل ہوا ۔اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے بیوی کو مجبوراً خلع لینا پڑی اور اپنے والدین کے گھر بچوں کے ساتھ شفٹ ہونا پڑا مگر کیا مجال کے اس نے تین بچوں اور بیوی کا نان و نفقہ اس دوران کبھی دیا ہو۔ بچوں کی ماں چونکہ اعلی تعلیم یافتہ ہے بچوں کی تعلیم اور گھریلو اخراجات کے لئے اس نے یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کردیا مگر یہاں بھی یہ باز نہ آیا اس نے اسے مزید پریشان اور ہراساں کرنے کےلئے وہاں کی انتظامیہ پر دبا ڈالا جس سے اس کی ملازمت جاتی رہی۔ جس پر ہراسگی کے قانون کے تحت اسکو ملازمت سے برخاستگی اور جرمانہ ہوا۔ کہا جاتا ہے اسکی مجرمانہ زہنیت کی انتہا ہے کہ اپنی پولیس کی ملازمت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی اہلیہ کے پورے خاندان بمعہ اپنے سسر جن کا تعلق اعلی عدلیہ سے ہے ان پر جھوٹا پرچہ کروایا۔ چونکہ یہ سب جھوٹ پر مبنی تھا لہٰذا وہ پرچہ خارج ہو گیا۔مگر پھر بھی باز نہ ایسا کہا جاتا ہے اس نے ایک جھوٹا کیس ان کے خلاف آزاد کشمیر میں بنوایا ۔وہاں کورٹ کے آڈر کی انکوائری پر جعلسازی ثابت ہونے پر اب اس کے خلاف ایف آئی آر وہاں بھی کٹ چکی ہے۔ اب یہ اس کیس میں مفرور یعنی پرو کلیم افنڈر ہے ۔ کہا جاتا ہے اس شخص کی کمینگی کی حد ہے کہ اس نے تین بچوں کو فیملی کورٹ کے حکم کے باوجود گزشتہ سات سالوں میں ایک روپیہ نہیں دیا جبکہ میڈیا پر جھوٹی خبریں چلانے پر پیسہ پانی کی طرح بہاتا ہے اور سابقہ بیوی کے والدین بچوں کی کفالت کر رہے ہیں۔کہا جاتا ہے اب بھی ان پر جھوٹے اور لغو الزامات لگانے اور بلیک میلنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔اس کوشش میں عدلیہ کے معزز جج صاحبان کو بھی زیر اثر کرنے اور سکنڈلائیز کرنے میں شرم محسوس نہ کی ۔حال ہی میں اس نے ایک میڈیا پرسن سے ملکر ایک وی لاگ یو ٹیوب پر اپنے کیس کی سماعت سے ایک دن قبل چلوا کر اپنا کیس مضبوط کرنے اور ملزم کو مظلوم بنانے کی کوشش کی۔ کاش یہ وی لاگر بنانے والے صحافی بھائی دوسری طرف سے بھی معلومات حاصل کر لیتے اور یک طرفہ پروگرام نہ چلاتے تو اچھا ہوتا۔
مگر پروگرام بنایا چلایا پھر ملزم کے ساتھ کورٹ میں بیٹھ کر مقدمے کی کاروائی بھی سنی ۔ ملزم کو اس روز ریلیف ملتے اور سنتے ہوئے بھی دیکھا۔اسکے بعد امید تھی کہ ملزم کے غلط الزامات ثابت ہونے پر ایک اور پروگرام ملزم کےساتھ اسے شرمندہ کرنے کےلئے کرتے اور اس ملزم کو اپنے پروگرام میں غلط بیانی بے بنیاد الزامات لگانے پر اسے کھری کھری سنانے کی امید تھی مگر ابھی تک ایسا نہیں کیا ۔ یاد رہے پروگرام میں ملزم کے کہنے پر ملزم کے ایکس سسر اور سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں جو الزام تراشی کی جو کچھ اس وڈیو میں کہا گیا وہ اگر باتیں درست ہوتیں تو اسے ریلیف کبھی بھی اس روز نہ ملتا۔ مگر جس سپریم کورٹ کے جج اور ایکس سسر کے متعلق غلط الزامات اور باتیں کی وہ اس روز غلط ثابت ہوئیں اسکے جواب میں ایک پروگرام آپ کا ملزم جنید ارشد کے ساتھ کرنا جناب کا تو بنتا ہے اس پر بھی ایک پروگرام کریں اس سے پوچھیں کہ جو تم نے اپنے الزمات خدشات میرے پروگرام میں دوسروں پر لگائے تھے وہ تو اب غلط ثابت ہوچکے ہیں۔اب ان سب سے تم معافی مانگو۔ معذرت بھرے دو بول بلواتے تو اچھا ہوتا اب بھی اگر آپ کو ملزم جنید ارشد اجازت دیتا ہے یا نہیں بھی دیتا تو بھی آپ اس پر معذرت کا پروگرام خود ہی کرلیں تاکہ لگائے گئے غلط الزامات کا مداوا دوسری پارٹی کو ہو سکے۔ اسے بتائیں اگر تیرے ایکس سسر مقدمہ میں اپنی پوزیشن سے تیرے کیس کی مداخلت کر رہے ہوتے تو اتنی طوالت سے اس روز یہ کیس نہ سنا جاتا۔ پھر اس کے اپنے کیس کا ریکارڈ گواہ ہے کہ ملزم نے کس طرح حیلے بہانوں سے کیس کو خود لٹکائے رکھا۔حرام کی کمائی کی لگی آگ میں انسان خود جلتا ہے اور پریشان دوسروں کو ہونا پڑتا ہے۔ کاش ہم اس سے سبق لیں اور حلال کا نوالہ کھائیں۔فارسی کی حکایت میں ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ کسی کی ناجائز بات یا عادت کو برداشت کیا جائے یہی کافی ہے کہ کسی کے بارے میں بن جانے کوئی رائے قائم نہ کی جائے۔
ہم بات کریں دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
کالم
ظلم سہنے سے ظالم کی مدد ہوتی ہے
- by web desk
- ستمبر 28, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 748 Views
- 1 سال ago