اداریہ کالم

عدلیہ سے محاذ آرائی ملک کے مفاد میں نہیں

گزشتہ ایک دو روز میں حکومتی اتحادی حلقوں کی طرف سے عدلیہ کے خلاف ہونے والی پریس کانفرنسوں پر جہاں عام شہریوں میں تشویش پائی گئی وہیں عدلیہ میں بھی اس کا نوٹس لیا گیا۔خاص کر سینٹر فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کی پریس کانفرنس کا عدلیہ کی طرف سے از خود نوٹس لیا گیا، جس کی جمعہ کے روز سماعت ہوئی۔سیاسی بے یقینی کے دور میں یہ پریس کانفرنسز جلتی پہ تیل ڈالنے کے مترادف تھی، ان کو ان نوٹس نہیں چھوڑا جا سکتا تھا چنانچہ سپریم کورٹ نے نوٹس لے کر شٹ اپ کال دی ہے۔پھر سماعت کے دوران واضح الفاظ میں کہا گیا کہ بادی النظر میں یہ توہین عدالت ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ خاص مقصد کے لیے یکے بعد دیگرے پریس کانفرنسیں کی گئیں، چیخ و پکار اور ڈرامے کی کیا ضررورت ہے، ہمارے منہ پر آکر تنقید کرلیں، میں نے کچھ غلط کیا تو اس کی سزا دیگر ججوں کو نہیں دی جاسکتی۔معلوم ہے پارلیمنٹ بالادست ادارہ ہے لیکن ججز کنڈکٹ پر پارلیمنٹ میں بھی بات نہیں ہوسکتی۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ اداروں کو بدنام کرنا قوم کی خدمت نہیں،پریس کانفرنسیں اخبارات میں اور ٹی وی پر چلائی گئیں۔سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حمایت سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے ،سینیٹر فیصل واوڈا اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے کراچی سے رکن قومی اسمبلی سید مصطفی کمال کو عدلیہ سے متعلق نامناسب زبان استعمال کرنے کی پاداش میں توہین عدالت میں اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں کے اندر اندر ان کی جانب سے عدلیہ کے متعلق کی گئی پریس کانفرنسوں کے حوالے سے وضاحت مانگ لی ہے جبکہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا )سے پریس کانفرنسز کی ویڈیو ریکارڈنگ اور متن بھی طلب کرتے ہوئے اور اٹارنی جنرل کو عدالت کی معاونت کیلئے نوٹس جاری کر دیا ہے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ بادی النظر میں ان پریس کانفرنسوں کے ذریعے عدلیہ کی توہین کی گئی ہے ۔پیمرا کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مصطفی کمال اور سینیٹر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنسوں میں صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے سوالات اور انکے جواب کی مکمل تفصیلات بھی پیش کرے۔اب اس کیس کی اگلی سماعت 5 جون کو ہوگی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس عرفان سادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعہ کے روز فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر توہین عدالت میں لئے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان پیش ہوئے، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی ہے؟ کیا وہ توہین آمیز ہے؟ تو انہوں نے کہاکہ جو میں نے سنی ہے اس میں آواز نہیں آ رہی تھی ،جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ میرے خلاف اس سے زیادہ گفتگو ہوتی رہی ہے لیکن میں نے اسے نظر انداز کیا ہے، نظر انداز کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہی انہوں نے سوچا ہے کہ چلو ہم بھی تقریر کرلیں۔ اگر کسی نے کچھ برا کیا ہے تواس کا نام لیکر کہیں۔ ہم کسی کو ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے،انہوں نے کہاکہ ادارے عوام کے ہوتے ہیں، انہیں بدنام کرنا کوئی ملک وقوم کی خدمت نہیں ہے، آزادی اظہار اور توہین عدالت سے متعلق آئین و قانون کو پڑھیں۔انہوں نے کہاکہ انہوں نے پریس کلب میں جاکر پریس کانفرنس کی ہے حالانکہ یہ پارلیمنٹ میں بھی بات کرسکتے تھے،بادی النظر میں ایسا لگتا ہے جیسے کسی خاص مقصد کے تحت یہ سب کچھ کیا گیا ہے، ایک کے بعد ایک پریس کانفرنس کی گئی ہے، مصطفی کمال بھی بولے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کیس کا حوالہ دیا گیاہے، حالانکہ ذوالفقار بھٹو کیس میں تو ہم نے اپنی اصلاح کی ہے، آپ بھی تو کچھ کریں، اگر اصلاح کا کوئی اور طریقہ کار ہے تو رجسٹرار یا مجھے لکھ کر دیں، ہم بہتری لائیں گے، یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ آپ ادارے کیخلاف چڑھ دوڑیں۔اس سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا، انفرادی طور پر تو کسی شخص پرتو تنقید کی جا سکتی ہے ،لیکن بحیثیت ادارہ ایسے رویے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مہذب معاشروں میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا ہے ،اسی لیے ہی وہاں پر توہین عدالت کے نوٹسز بھی جاری نہیں ہوتے ہیں، چیخ و پکار اور ڈرامے کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تعمیری تنقید ضرور کریں، فیصل واوڈا کے بعد مصطفی کمال بھی سامنے آ گئے ہیں، دونوں ہی پارلیمنٹ کے رکن ہیں،انہیں ایوان میں بولنا چاہیئے تھا ، ایسی گفتگو کرنے کیلئے پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا گیاہے۔عدلیہ کی طرف سے بڑے اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ان کا جواب مذکورہ دونوں رہنماوں کو تحمل سےدینا ہو گا تاکہ صورتحال بگڑنے کی بجائے سنبھل جائے۔پاکستان میں سیاست دانوں اور ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں ہونے والے واقعات اور معروف سیاسی رہنماوں کی جانب سے عدلیہ مخالف پریس کانفرنسز سے ایسا دیکھائی دینے لگا ہے کہ اب یہ نئی محاذ آرائی سر اٹھانے لگی ہے۔بہت سے حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ عدلیہ پر تنقید کرنے والے سیاستدان کسی کی ایما پر ایسا کر رہے ہیں،اس تاثر کو بھی ضرور ذائل ہونا چاہئے کہ ملک بلاوجہ کی کشمکش کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
کرغستان بشکیک میں پاکستانی طلبہ کو مشکل صورتحال کا سامنا
کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں اس وقت غیر ملکی افراد جن میں پاکستانی بھی شامل ہیں میں تشویش کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔اطلاعات کے مطابق مقامی افراد غیر ملکی طلبہ پر حملے کر رہے ہیں، جس کی زد میں آکر متعدد پاکستانی طلبہ زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں تاہم سفارتخانے کے مطابق اب تک کسی کے جان بحق ہونے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔بشکیک میں پاکستانی سفارتخانے کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ بشکیک میں مقامی افراد نے مقیم غیر ملکی طلبہ بشمول پاکستانیوں پرحملہ کر دیا، جن کا چند روز قبل مصری شہریوں کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا۔بشکیک میں میڈیکل یونیورسٹیوں کے متعدد ہاسٹلز اور پاکستانیوں سمیت بین الاقوامی طلبہ کی نجی رہائش گاہوں پر حملے کیے گئے۔ہجومی تشدد کے تناظر میں سفارتخانے نے سختی سے مشورہ دیا ہے کہ پاکستانی طلبہ گھروں کے اندر رہیں۔سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے بشکیک میں پاکستان کے سفیر نے یقین دلایا ہے کہ سفارت خانہ پاکستانی طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مقامی قانون نافذ کرنے والے حکام سے رابطہ کر رہا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے بھی سفیر کے پیغام کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سفارت خانہ پاکستانی طلبہ کی سہولت کے لیے کرغستان کے حکام سے رابطے میں ہے، ان کی حفاظت سفیر اور ان کی ٹیم کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri