کالم

عمران خان کا مجنونانہ بیانیہ

حیرت ہے کہ عید کے ایام میں بھی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو نہ دن کو قرار آتا ہے نہ رات کو راحت نصیب ہوتی ہے۔آئے روز ان کی باتیں مجنونانہ حدوں کو چھو رہی ہیں اور ان کا فضول و مجہول بیانیہ پٹ رہا ہے۔ٹھنڈے دل و دماغ سے اور غیر جانبدارانہ نقطہ نگاہ سے جائزہ لیں تو ان کا بیانیہ مجنونانہ بلکہ انتقامانہ ہو چکا ہے۔کوئی دن نہیں جاتا جب وہ اقتدار سے نکالے جانے کا ماتم نہ کرتے ہوں۔ان کی ہر شام شام غریباں کا منظر پیش کرتی ہے اور وہ ماتم کرتے ہو جنرل قمر جاوید کو کوسنے لگتے ہیں۔گماں گزرتا ہے کہ اقتدار سے نکالے جانے کا زخم ایک ناسور بن چکا ہے اور وہ گہرا گھا بھرنے میں نہیں آتا ۔اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے وہ خصوصا ریٹائر آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے لتے لیتے رہتے ہیں۔ان کے تازہ فرمودات اور ارشادات میں عوام کو یہ بتایا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں انہوں نے جنرل باجوہ کے کہنے پر توڑیں تھیں۔
اللہ اللہ اب اس سادگی یا عیاری پر کون نہ مر جائے۔عمران خان نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ میری صدر مملکت عارف علوی کے ساتھ جنرل باجوہ سے ملاقات ہوئی، جس میں جنرل باجوہ نے ہم سے کہا کہ آپ اسمبلیاں تحلیل کردیں تو انتخابات کروادیں گے جس پر ہم نے اپنی حکومتیں گرادیں۔کوئی اٹھے اور چیخ کر کہے کہ حضور والا آپ کی سیاسی فراست اتنی سی ہے کہ کسی کے کہنے پر عوام کی دو صوبائی اسمبلیوں کا گلا گھونٹ ڈالا؟ لیکن کپتان کو یہ آئینہ دکھائے کون۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ خاتون میزبان جوابی مباحثے میں یہ نکتہ اٹھاتیں اور بلند آہنگ سوال کرتیں۔ لیکن وہ خاتون اینکر ایسا کیوں کرتیں کہ کپتان اپنے من پسند صحافیوں کو ہی انٹرویو سے نوازتے ہیں۔جس صحافی پر کپتان کو ماشہ بھی شبہہ ہو وہ ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔جب انٹرویو دینے اور لینے والے دونوں خاموش اور غیر اعلانیہ معاہدے میں بندھے ہوں پھر ایسے کڑے سوال نہیں اٹھائے جاتے بابا۔
آگے چل کر عمران خان نے مزید لب کشائی کہ حکومت نے ابھی تک باضابطہ طور پر ان کی پارٹی سے بات چیت کے لیے رابطہ نہیں کیا۔جی ہاں حکومت واقعی ان سے مذاکرات میں سنجیدہ نہیں۔ مولانا فضل الرحمان تو بے لاگ اور بے خوف وخطر کہہ چکے ہیں کہ ایک شرپسند اور آئین شکن سے مذاکرات کیوں کریں؟ہمارے ذرائع کے مطابق حکومت وقت گزاری کے لیے پی ٹی آئی کو دانہ دنکا تو ڈال سکتی ہے مگر بامعنی یا نتیجہ خیز تبادلہ خیال کبھی نہیں کرے گی۔اب عمران خان اسمبلیاں تحلیل کر کے خود اپنے پھندے میں پھنس چکے ہیں۔حکمران انہیں کیوں آسودہ کریں گے یا محفوظ راستہ دیں گے۔اب انتخابات کی بساط حکمران اپنی مرضی سے بچھائیں گے اور مہرے بھی اپنی منشا سے بدلیں گے۔ہم انہی کالموں میں بار بار اور باالفاظ دیگر یہ کہ چکے ہیں کہ انتخابات اکتوبر سے پہلے نہیں ہونگے۔باذوق قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بہت پہلے کی گئی ہماری پوشین گوئی آج بھی کس قدر صداقت کی میزان پر پوری اتر رہی ہے۔باخبر اور بااختیار لوگ فیصلہ کر چکے ہیں کہ عمران خان کے دبا میں آکر ہرگز الیکشن نہیں کرائے جائیں گے۔
عید کی تعطیلات کے دوران سیاسی صورتحال خاصی ہنگامہ خیز اور فتنہ پرور رہی ہے۔یار لوگوں نے بے پر کی اڑائے رکھی کہ یوں ہو جائے یا پھر ووں ہو جائے گا۔بھائیو اول تو نہ کوئی زمین پھٹے گی اور نہ ہی کوئی آسماں گرے گا۔البتہ اگر شہباز شریف،آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کوئی فیصلہ کر لیں تو وہ سب کچھ ہو رہے گا۔عمران خان جس در پر بھی جائیں یا جس چوکھٹ پر بھی دستک دیں ،ہو گا کچھ بھی نہیں۔ہو گا وہی جو پی ڈی ایم کی حکومت چاہے گی یا پھر بادشاہ گر نواز شریف جو چاہیں گے۔کپتان کے ہاتھوں سے فیصلے کی ڈور پھسل چکی اور وہ بس کٹی ہوئی گڈی لیے پھرتے ہیں۔بھلا بغیر ڈور کے انتخابات کی بسنت کیسے اور کیونکر منائی جا سکتی ہے۔ویسے بھی عمران خان کے یوٹرنوں نے ان کے بیانیے کی شکل مسخ کر کے رکھ دی ہے۔اب تو ریڑھی بان،چھوٹا دکاندار،مستری اور مزدور بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو چکا ہے کہ آخر عمران خان کا بیانیہ ہے کیا؟ کبھی وہ کچھ کہتا ہے اور کہیں کچھ۔وہ تو اپنی ہی کہی ہوئی بات پر قائم نہیں رہتا تو کیسے اس کا اعتبار کریں؟ عمران خان کے مجنونانہ بیانیے اور بیانات نے ان کی ساکھ اور اہمیت کو شدید زک پہنچائی ہے۔اب سادہ لوح عوام بھی ان کے بیانیے کو مجنونانہ اور مجرمانہ کہنے لگے ہیں۔سوشل میڈیا پر صارفین ،ناظرین اور قارئین ان کے بیانیے کو پٹتا دیکھ رہے ہیں۔سیاسی مخالفین ،لیگی لیڈروں اور پی پی رہنماں نے عمران خان کے مجنونانہ بیانیے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے ۔ اب دیکھئے الیکشن میں اس فضول و مجہول اور بے معنی بیانیے کے چورن کا کیا بنتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے