کالم

مصباح نوید کی غلام گردشیں

غلام کے معنی سے تو ہر پاکستانی بخوبی واقف و آگاہ ہو چکا ہے۔یہ آگہی بھی نئی نہیں ، ملک کی آزادی کے چند سال بعد ،جیسے ہی آزادی کا خمار اترا، قوم پر غلامی کے معنی آشکار ہونے لگے تھے۔ ویسے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ؛ آئین پاکستان کے عوض قرارداد مقاصد منظور ہو جانے کا علم علامہ اقبال کو 1935 میں کیسے ہو چکا تھا، انہوں نے پہلے ہی سے اندازہ قائم کر رکھا تھا کہ؛
شیر مردوں سے ہوا بیشہ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
جہاں تک ” گردش "یا "گردشیں” کا تعلق ہے، اقبال اس کی طرف بھی متوجہ بلکہ اس حقیقت پر فکر مند رہتے تھے کہ؛
خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہ و میر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی
قیاس چاہتا ہے کہ اسی قسم کی گردش صبح و شام کے خاتمے کے لیے انہوں نے ایک نئے اور جدا معاشرے کا خواب دیکھا ہو گا۔اقبال اس خواب کی تعبیر میں حائل مشکلات کا شعور بھی رکھتے تھے، جب وہ کہتے ہیں کہ؛
تیشے کی کوئی گردش تقدیر تو دیکھے
سیراب ہے پرویز، جگر تشنہ ہے فرہاد
تو ان کی فراست پر اعتبار بڑھ جاتا ہے۔ مصباح نوید کے افسانوں کا مجموعہ "غلام گردشیں” معاشرے کی ان گنت بھول بھلیوں اور ان میں بھٹکتے ،دوڑتے بھاگتے ،دھکے کھاتے، ہراساں اور بدحال غلاموں اور مظلوم انسانوں کے استعارے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ مصباح نوید کے افسانوں کی قرات خیال کو علامہ اقبال تک تو نہیں لے جاتی ،لیکن ان کے افسانوں کے تازہ مجموعے کے عنوان میں غلام گردشوں نے یک جا ہوکر ایک پاکستانی کے طور پر میرا دھیان اقبال کی لفظیات اور تصورات کی طرف موڑ دیا۔ جس فلاحی معاشرے کا تصور اقبال نے قائم کیا اور ہمیں اس تصور کی تعبیر کا حصہ بنایا تھا ، وہ نئے ملک کے قیام کے بعد ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔مصباح نوید اسی غیرمرتب ، منشتر ، گستاخ اور بدچلن و بد نصیب معاشرے اور اس معاشرے کے مختلف کرداروں کو کہانی کا عنوان بناتی ہے۔کبھی کبھی گمان گزرتا ہے کہ لکھنے کی جلدی اور خیالات کی یلغار میں وہ قلم کی بجائے نشتر پکڑ لیتی ہے ۔وہ بے دریغ لکھتی رہتی ہے ،بھلے کاغذ سے لہو کے قطرے ہی کیوں نہ ٹپکنے لگیں۔یا شاید میں مبالغے سے کام لے رہا ہوں ۔لیکن جب مصباح نوید کے مشاہدے ، سماج شناسی اور انسانی مبارزت کی جزیئات سے واقفیت کو دیکھتا ہوں تو یہ مبالغہ بھی کم پڑنے لگتا ہے ۔ مصباح نوید کا تعلق ایک آزاد اور جفا کش شہر سے ہے۔ ساہیوال شہر پنجاب کی دانش ، فکری توانائیوں اور دلیرانہ اظہار کے متنوع پیرایوں کی پیش کش کے حوالے سے ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ساہیوال کی ذہنی فضا ہمیشہ سے آزاد اور بے ریا رہی ہے۔شعر ہو یا افسانہ ، یہ شہر اپنے اظہار کی ندرت اور تازگی کو قائم رکھتا ہے۔مصباح نوید ساہیوال شہر کے حال اور مستقبل کا ایک معتبر اور طاقتور حوالہ بن چکی ہے۔مردوں کے مقبوضہ سماج کی بہادر مزاحمت کار ، نگاہ تیز ،مشاہدہ عمیق اور تجزیہ دقیق ارے بھئی مصباح نوید آپ ہو کون؟ اتنی محنت سے بنے گئے تنگ نظری کے قالین کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے آپ نے ۔ میں مصباح نوید کا کبھی استاد نہیں رہا کہ اسے پورے یقین کے ساتھ باغی شاگرد قرار دے سکوں، نہ ہی اتنا پڑھا لکھا ہوں کہ اپنے متنوع مطالعات کی بنیاد پر اسے مارکسسٹ کہنا اور سمجھنا شروع کر دوں۔میں کبھی اس کا کلاس فیلو بھی نہیں رہا کہ ہر وقت اس کی تعریفیں کر کے خود کو عقلمند ثابت کرتا پھروں یا اس کے بیان عظمت کو اپنے لیے توشہ آخرت سمجھنے لگوں۔میں مصباح نوید کا محض ایک قاری ،اور اس کی افسانہ نگاری کا مداح ہوں۔ وہ مصنف یا مصنفہ، جو آپ کو اپنی تحریر کے اندر کھینچ لینے کا ہنر اور ہمت رکھتا یا رکھتی ہو ، اسے آپ اپنا بے تکلف دوست سمجھ سکتے ہیں۔یوں میں اپنے تیئں مصباح نوید کا بے تکلف دوست بھی ہوں۔شاید یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی تبصرہ کرتے یا رائے دیتے ہوئے کچھ تجاوز بھی کر جاتا ہوں۔مصباح نوید کے افسانوں کا تازہ گلدستہ غلام گردشیں سامنے بیٹھا مسکرا رہا ہے ۔چند روز کی دور دور سے نظر بازی کے بعد اس کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا ہے۔ غلام گردشیں مصباح نوید کے ایک موثر اور قریب قریب مبنی بر حقیقت افسانے کا عنوان بھی ہے ۔یہ افسانہ ان کے پہلے مجموعے چندن راکھ کی اشاعت کے بعد شائع ہوا تھا ، اور بےحد پسند کیا گیا ۔ قیاس چاہتا ہے کہ؛ غلام گردشیں کے معنوی اطلاق کی وسعت کے باعث اسے افسانوں کے دوسرے مجموعے کا عنوان بنایا گیا ہے۔ غلام گردشیں میں کل پچیس افسانے شامل کئے گئے ہیں۔ان میں سے چودہ افسانے چندن راکھ میں شائع ہو چکے ہیں ،جبکہ گیارہ افسانے نئے ہیں۔یہ گیارہ نئے افسانے اپنے پرلطف اور تحیئر آمیز مطالعے سے باور کرا رہے ہیں کہ مصباح نوید کی حقیقت نگاری اور الم شماری کی روایت میں توسیع ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ کتنے مختلف اور رواں فکری مزاج سے مزاحم افسانے ہیں ۔پچھلے زمانوں میں مختلف طرح سوچنے اور اپنا انداز نظر رکھنے والے یا والی کو بڑے آرام سے گنہگار یا کافر قرار دے دیا جاتا تھا۔پہلی بار جب یہ افسانے پڑھے تو یہی خیال ذہن میں آیا کہ واہ کتنی اچھی گنہگار اور کیسی شاندار کافر افسانہ نگار ہے کہ جس کے کفر کی اپنی ہی الگ شان ہے۔ غلام گردشیں کا افسانہ "نجس” عمومی اقدار نہیں ، رائج الوقت سوچ اور کردار کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ کی طرح سے ہے۔افسانہ نگار نے صورت حال کو ایک کردار بناتے ہوئے ، اس کی ایسی ظالمانہ اور بے رحم تصویر کشی کی ہے کہ اب دبیز کپڑے سے بنے کینوس کا کوئی تار بھی سلامت نہیں رہا ۔ بددیانتی ، خیانت، لالچ ،درندگی اور ظلم کا ایک اپنا ہی نظام اخلاق ہوا کرتا ہے ،اس نظام اخلاق میں "نجس” ہوتے نہیں، کوشش کر کے بنائے جاتے ہیں۔ اس افسانے نے غیرت کے نام پر قتل کے پیچھے چھپی بے غیرتی، بے حمیتی اور جرم پرستی و مجرم سازی کے سارے راز کھول کر رکھ دیئے ہیں ۔افسانہ نگار کو ازراہ احتیاط اس افسانے کے ساتھ ایک نوٹ ضرور لکھنا چاہیئے تھا کہ؛ نازک دل اور کمزور دماغ قاری اس افسانے کی قرات سے گریز کریں ، جیسا کہ خود مجھے کرنا چاہیئے تھا۔ افسانے "بابا پیر کو جوئیں” کا بھی یہی حال ہے ۔ افسانہ نگار نے گھر پڑی خاتون خانہ کے المیے کو کس بےرحم تفصیل سے پیش کر دیا ہے۔ "بد بودار پسینے سے پسیجے انڈروئیر دو انگلیوں سے ایسے اٹھاتی جیسے مری ہوئی چھپکلی اٹھائے ہو، ناک سکیڑے بغیر واشنگ ٹب میں پھینکتی۔ تربوز جیسی توند فٹ آگے مینڈک کی طرح پھدکتی۔ توند کو دیکھ کر خاتون خانہ کو ہمیشہ ابکائی آتی تھی لیکن چہرے پر مسکراہٹ چپکائے واری واری جاتی ۔ کچھ راتیں شوہر کی باہر مخصوص ہوتی تھیں۔ پوچھنے پہ ہمیشہ جواب ملتا "تمیں اس سے کیا غرض ؟ خرچہ پورا ملتا ہے نا !”خاتون خانہ کندھے اچکاتی سوچتی۔ مجھے کیا ! خرچہ تو پورا ملتا ہے نا۔ ہاتھی پھرے گاں گاں جس کا ہا تھی اسی کا ناں ”
سوچیں بھی پوری پھپھے کٹنیاں ہوتی ہیں۔ تیلیاں لگانے سے باز نہیں آتیں۔ خاتون خانہ کے کانوں سے شعلے سے نکلے۔ پیشے والیاں ریٹائرمنٹ کی عمر سے پہلے تو پیار، خیال، دھیان سے رہتی ہیں اور ہم شریف بہو بیٹیاں صدیوں سے توقعات ، فرضیات کے چھکڑے میں اس تھکے ماندے اونٹ کی مانند جتی ہیں جس کے لیے چڑھائی لعنت تو اترائی نے لعنت ۔” غلام گردشیں کا افسانہ "نسیم پوچھتی ہے”درد کی ایک لہر کی طرح ہے۔ اسے پڑھا جائے تو کس طرح ؟ عبارت سے معنی اور کیفیت تلاش کس طور کی جائے۔بار بار آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔ کیسی الم نگاری ہے ،کیا درد شماری ہے، میرا مطالبہ ہے کہ ریاست سارے کام چھوڑ کر سب سے پہلے مصباح نوید کی افسانہ نگاری پر فورا پابندی لگانے کا اعلان کرے۔سینٹ سے ایک قرارداد یا ایک صدارتی آرڈیننس کافی ہو گا۔اگر مصباح نوید اسی طرح کی الم نگاری کرتی رہی، تو بارش ہو نہ ہو ،اشکوں سے طوفان ضرور برپا ہو جائے گا۔ تحقیق کہ اشک لگے ہاتھوں عقل و شعور کو بھی دھو دھا کر اجلا کر دیتے ہیں ۔ہمارے ہاں کے محروم طبقات کو اگر عقل و شعور اور فہم و فراست نے آ لیا ،تو ان کا احساس زیاں گناہ بن کر سامنے آن کھڑا ہوگا ۔اور پھر گناہوں سے بچنے کی جدو جہد شروع ہو جائے گی ،بے حسی اور مکاری کا نظام ختم ہو جائے گا۔ مصباح نوید کے افسانے مسائل کا بیان نہیں کرتے ، دل و دماغ اور دید و دانش میں مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔کوئی ہے جو اس باغی افسانہ نگار کو روک سکے۔؟ مصباح نوید کےلئے لکھنا سانس لینے جیسا عمل ہے ،جب وہ لکھ نہ رہی ہو تو سمجھ جائیے کہ وہ کچھ نہ کچھ سوچ رہی ہے اور تحقیق کہ سوچنے والی خاتون سمجھ بھی رہی ہوتی ہے ،ایک ساکن اور متحجرمعاشرے میں یہ ایک قابل اعتراض بات ہے۔میرا تاثر یہ ہے کہ وہ جتنا سوچتی اور جو کچھ سمجھ جاتی ہے ، لکھتی اس سے بہت کم ہے ۔اس کے باوجود اس کا لکھا متوجہ کرتا ہے، حیران کرتا ہے ، پریشان کرتا ہے اوربسا اوقات ایسا بھی لگتا ہے کہ وہ کہانی نہیں لکھ رہی ، بلکہ ایک منہ زور کہانی اس سے اپنا آپ لکھوا رہی ہے ۔وہ جس طرح سوچتے ہوئے احتیاط نہیں کرتی ،اسی طرح لکھتے ہوئے لحاظ بھی نہیں کرتی۔کوئءخیال جیسے ہی مصباح نوید کے قلم کی زد میں آتا ہے ،قلم اس کا شکار کر لیتا ہے ۔اس کے قلم کی رفتار تند خو چشمے جیسی ہے ،جو حد درجہ بے چینی اور اضطراب کے ساتھ خیالات کی بلند چوٹیوں سے اتر کر خشک لفظوں کی ترسی ہوئی زمین کو سیراب کرنا چاہتا ہے۔ بطورپاکستانی قاری کے ، میں ایک بار پھر خبردار کر رہا ہوں کہ یہ خطرناک افسانہ نگار معاشرے کے فکری جمود کو توڑ کر رکھ دے گی ۔یہ مرد اور عورت دونوں کو برابر کا انسان سمجھتی ہے۔یہ مردوں سے نہیں ڈرتی، یہ ملا سے نہیں گھبراتی ، یہ پیروں ، گدی نشینوں اور معاشرے کے دیگر گرہ کٹ اٹھائی گیروں سے خوفزدہ نہیں ہوتی۔ایسے میں مناسب یہی سے کہ اس سے ڈرا جائے۔اور اس کے افسانوں سے دور رہا جائے ، بلکہ اگر آپ خاتون ہیں تو پھر آپ کو مصباح نوید کے افسانوں سے پردہ کرنا چاہیئے۔سمجھانا میرا کام تھا ، سو سمجھا دیا۔ایک پیغام مصباح نوید کےلئے ہے ۔دیکھئے؛ ہمارا معاشرہ عالم خواب میں ہے ،ورنہ آپ اس وقت ملک میں سب سے زیادہ اہمیت اور عظمت والی فکشن نگار کا رتبہ انجوائے کر رہی ہوتیں۔لیکن ؛ بہرحال آپ اردو افسانہ نگاری میں منفرد اسلوب ، تازہ اور نادر رجحانات اور دیکھنے ،سوچنے ، سمجھنے اور سمجھانے کے عمدہ نمونے اپنے افسانوں کی صورت پیش کئے چلی جا رہی ہیں ۔آپ نہ ججھکتی ہین ، نہ ڈرتی گھبراتی ہیں۔امر واقعہ کو دیکھنے کا جو زاویہ نگاہ آپ رکھتی ہیں ،اس کی تحویل اور سرعام بیان ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ، اس لیے احتیاط۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے