کالم

مقبوضہ کشمیر میں خوف کا راج

بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموںوکشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے نہتے کشمیریوں پر بڑھتے ہوئے بھارتی مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوجیوں نے محاصرے اور تلاشی کی بلا جواز کارروائیوں کے ذریعے مقبوضہ علاقے کے لوگوں کا جینا دو بھر کر دیاہے۔ مودی حکومت پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی جیسے کالے قوانین کے ذریعے مقبوضہ علاقے میں اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش کرر ہی ہے ، بھارتی فوجیوںنے علاقے میں خوف و دہشت کا راج قائم کر رکھا ہے ، قابض بھارتی اہلکار مقبوضہ علاقے کے اطراف و اکناف میں محاصرے اور تلاشی کی پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قابض بھارتی اہلکار تلاشی آپریشنوں کے دوران نوجوان کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرلیتے ہیں اور انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، فوجی گھروں میں گھس کر خواتین اور بچوں سمیت مکینوں کو ہراساں اور قیمتی گھریلو اشیاءکی توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ بی جے پی کی فرقہ پرست بھارتی حکومت نے کشمیریوں کے تمام سیاسی ، سماجی ، معاشی حتی ٰ کہ مذہبی حقوق بھی سلب کر رکھے ہیں، جو کوئی بھارتی جبر کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اسے کالے قوانین کے تحت سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت کو چاہیے کہ وہ جبر وستم کی پالیسی ترک کرکے مقبوضہ علاقے کے زمینی حقائق تسلیم کرے اور تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کرانے کیلئے ماحول کو سازگار بنائے۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت اپنے اس شرمناک اقدام کے ذریعے وادی کے لوگوں میں مایوسی اور خوف پھیلانا چاہتا ہے۔ نفسیاتی طور پر غلامی کا احساس دلانے کی ایک مبینہ کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک قوم کو طویل عرصے سے غلام بنائے رکھنے کے بھارتی حربے شدید مذمت کے لائق ہیں۔ جن کشمیریوں کی جائیدادیں ضبط کی گئی ہیں، ان پر منشیات فروش کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔ نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی کی فرقہ پرست بھارتی حکومت کشمیریوں کو اپنے ہی وطن میں بے گھر کرنے کیلئے ان کے گھرو ں، زمینوں اور دیگر املاک کی ضبطی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ مودی انتظامیہ نے اپنے تازہ اقدام میں ضلع بارہمولہ کے علاقے سوپور نسیم باغ میں ایک کشمیری کی جائیدار ضبط کر لی۔ بھارتی پولیس نے نسیم باغ سوپور کے رہائشی عبدالرشید نجار کا ایک منزلہ رہائشی مکان اورایک کنال سے زائد اراضی یہ کہہ کر ضبط کر لی کہ نجار کی جائیداد آزادی پسند گرمیوں کی وجہ سے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے تحت ضبط کی گئی۔ یہ امر اس ضمن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارت حیلے بہانوں سے اپنے مضموم مقاصد کی تکمیل پر عمل پیرا ہے ۔ دوسری طرف امکان یہ بھی ہے کہ جائیداد ضبطی کے اس عمل کے ذریعے کشمیریوں کو تحریک ازادی کی حمایت ترک کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ بھارت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غلامی کی یہ زنجیر صرف رکھنے میں مضبوط ہیں تاہم عملا انتہائی کمزور ہو چکی ہے۔جس کا ٹوٹنا آزادی کی صورت میں طے ہے۔ تاہم تازہ ترین کارروائیوں میں بھارت نے وادی سے تقریبا 50 افراد کو گرفتار کر لیا ہے، ان افراد کو مختلف کاروائیوں میں گرفتار کیا گیا ہے ۔ محاصرے اور تلاشی کے دوران گھر گھر چھاپے مارے گئے ہیں۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما اس سلسلے میں پرعزم ہیں کہ یہ تمام حربے کی صورت کشمیری عوام کو کمزور نہیں کر سکتے۔بھارتی تسلط کا ایک روز ضرور خاتمہ ہوگا۔ کشمیری اپنے آزاد وطن میں سکھ اور چین کی زندگی گزار بسر کر سکیں گے۔ بھارت نے آزادی کی بات کرنے والے تمام سیاسی رہنماﺅں کو سلاخوں کے پیچھے قید رکھا ، زبان بندی کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں اہم سیاسی رہنماوں نے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔ کشمیری ازاد فضاوں میں سانس لینے کے جرم کی اس جدوجہد کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی حریت پسندوں کی جائیداد ضبطی کا عمل جاری ہے۔کیونکہ بھارتی حکومت اسرائیلی طرز پر مقبوضہ کشمیر میں ہندوو¿ں کےلئے علیحدہ بستیاں بنانا چاہتی ہے تاکہ یہاں کی مسلم اکثریت اقلیت میں بدل جائے۔ اسی لئے سب سے پہلے وادی کی 9600 کنال سے زیادہ اراضی پر قبضہ کیا گیا جس پر37 نئی صنعتی سٹیٹس قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے ۔جموں و کشمیر رائٹ ٹو انفارمیشن موومنٹ کے چیئرمین ، ڈاکٹر راجہ مظفر بٹ کا کہنا ہے کہ 9600 کنال پر قبضہ زراعت پر مبنی کشمیر کی معیشت کےلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ فیکٹریاں لگانے کے بجائے 9600 کنال اراضی پر 100 زرعی فارموں کے قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہاں بھارت سے ہندوو¿ں کو لا کر بسایا جائے اور یوں کشمیر کی آبادی میں مسلم اکثریت کو ختم کیا جائے۔ غیر کشمیری ہندوو¿ں کو کشمیر میں بسانے کےلئے زمین کی ضرورت تھی جو کہ 370 آرٹیکل کے تحت ممکن نہ تھا کیونکہ اس آرٹیکل کے تحت کوئی بھی غیر کشمیر ، مقبوضہ وادی میں جائیداد یا زمین نہیں خرید سکتا تھا ۔اسی لئے آرٹیکل کو ختم کر کے فلسطین میں یہودیوں کی بستیوں کی طرف یہاں ہندوو¿ں کی بستیاں بسائی جانے لگیں۔ بستیاں بسانے کےلئے زمین کی ضرورت ہے جس کےلئے جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کے دوران بھارتی انتظامیہ جھوٹے مقدموں کے ذریعے کشمیریوں کی جائیداد ہتھیانے لگی ہے۔ قابض بھارتی فوج اور انتظامیہ” اسرائیلی ماڈل“ پر عمل درآمد کرتے ہوئے کشمیریوں کی جائیدادوں پر انتہاپسند ہندوو¿ں کو آباد کیا جاسکے اور نسل کشی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلا جائے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر میں ”اسرائیلی ماڈل“پر کام کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کا اعلان بھارتی وزیراعظم کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے