کانگریس نے غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انتخابات سے قبل علاقے کی ریاستی حیثیت کی بحالی اور جلد از جلد لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کرانے کا مطالبہ کیاہے۔پانچ اگست 2019 کوبھارت میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے بھارتی آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔ پارلیمان سے پاس ہونے والے مودی حکومت کے اس فیصلے کے بعد کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔2023 میں بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر میں آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے صدارتی حکم کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کی اپیلیں مسترد کر دیں۔سپریم کورٹ نے بھارتی الیکشن کمیشن کو ستمبر 2024 تک جموں و کشمیر میں انتخابات کرانے کا بھی حکم دیا ۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’جموں و کشمیر میں کسی طور پر بھی خودمختاری کا عنصر موجود نہیں ہے اور نہ ہی داخلی طور پر خودمختار ہے۔ آرٹیکل 370 غیرمتناسب وفاقیت کی شکل ہے نہ کہ خودمختاری کی۔‘درخواست گزاروں نے موقف اپنایا تھا کہ حکومت نے پارلیمنٹ میں اکثریت کا استعمال کیا اور صدر کے ذریعے ایک مکمل ریاست کو جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈرز کا سلسلہ جاری کیا۔درخواست گزاروں نے حکومت کے اس اقدام کو ’وفاقیت پر حملہ اور آئین کے ساتھ دھوکہ‘ قرار دیا۔بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔وزارت داخلہ کے نوٹی فیکیشن میں کہا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کو ’یونین ٹیریٹری آف جموں اینڈ کشمیر‘ کر دیا گیا ہے۔ اب وادی کشمیر میں مرکزی حکومت کے قوانین لاگو ہوں گے۔بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں خصوصی حیثیت دیتا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت اور داخلی خود مختاری حاصل تھی۔ آئین کا آرٹیکل 35 اے ریاست کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کشمیر کے مستقل باسیوں کی تشریح کرے اور ریاست کے باسیوں کے خصوصی حقوق اور مراعات کا تعین کرے۔آرٹیکل 35 اے کو بھارت کے آئین میں 1954 میں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے شامل کیا گیا تھا۔ آرٹیکل کے تحت اگر کوئی کشمیری خاتون ریاست سے باہر کسی شخص سے شادی کرتی ہے تو وہ کشمیر میں جائیداد کا حق کھو بیٹھتی ہے۔ اس قانون کے تحت ریاست سے باہر کا کوئی بھی شہری کشمیر میں غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتا، مستقل رہائش نہیں رکھ سکتا اور ریاست کی جانب سے دیے جانے والے وظائف بھی حاصل نہیں کر سکتا۔اس آرٹیکل کے تحت ریاستی حکومت ریاست کے باہر کے لوگوں کو نوکریوں پر نہیں رکھ سکتی۔آئین کی شق 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔اس شق کے تحت بھارت کی یونین حکومت، خارجہ، دفاع اور مواصلات کے شعبوں میں ریاست کشمیر کی حکومت کی رائے سے مناسب قانون سازی کر سکتی ہے جبکہ دوسرے تمام معاملات میں ریاست کی اپنی قانون ساز اسمبلی کی مرضی کے بغیر کوئی مداخلت نہیں ہو سکتی۔1947 میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان کو تقسیم کے نتیجے میںدو نئے ملک پاکستان اور بھارت وجود میں آئے۔ تقسیم فارمولے کے مطابق برصغیر کی تقریباً 600 ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ مسلمان اکثریت کے علاقے پاکستان کا حصہ بنیں گے اور ہندو اکثریت کے علاقے بھارت کا حصہ بنیں گے۔ دوسری ریاستوں کی طرح یہ فارمولا کشمیر پر بھی لاگو ہوا۔انگریزوں اور کانگریسی رہنماو¿ں کی ریشہ دوانیوں سے باوو¿نڈری کمیشن کے اہم کردار ریڈ کلف ایوارڈ نے گرداس پور کے علاقہ جو کہ کشمیر میں رسائی کا ذریعہ تھا بھارت کو دے دیا۔ اس سے قبل 19 جولائی 1947ءکو کشمیریوں نے متفقہ قرارداد کے ذریعہ پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کر لیا تھا۔ پورے کشمیر میں جدوجہد شروع ہو چکی تھی۔ بھارت نے 27 اکتوبر 1947ءکو رات کے اندھیرے میں کشمیر پر فوجیں اتار کر جبراً قبضہ کر لیا۔ کشمیریوں نے بغاوت کی اور اپنی مدد آپ کے تحت آزاد کشمیر کا 4½ ہزار مربع میل علاقہ اور 29000 مربع میل گلگت بلتستان جہاد کر کے آزاد کرا لیا۔پورے جموں و کشمیر کی آزادی کیلئے کشمیری سرینگر کی جانب پیش قدمی کر رہے تھے۔ بھارت کے وزیراعظم نہرو نے اقوام متحدہ میں جا کر مسئلہ کشمیر اٹھایا اور بھارت سے ڈوگرہ کے الحاق کی جھوٹی کہانی بنائی حالانکہ مہاراجہ اور شیخ عبداللہ الحاق کے مجاز نہ تھے نہ ہی جغرافیائی اور تاریخی حقائق بھارت کے حق میں تھے۔ پھر جب کشمیر کی 68% ا?بادی مسلمان تھی پھر کیسے اس کا الحاق ایک غیر مسلم ملک کے ساتھ ہو سکتا تھا۔اقوام متحدہ نے تنازعہ کشمیر کے لئے قراردادیں منظور کیں جن میں کشمیریوں کا حق خود ارادیت تسلیم کیا گیا اور یہ طے ہوا کہ ان کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائے۔ وزیراعظم نہرو نے اپنے پارلیمنٹ انڈیا اور ریڈیو انڈیا میں خطاب کے دوران اور پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی کو بذریعہ خط اور پوری دنیا سے وعدہ کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے فراہم کیا جائے گا۔ دنیا کے سامنے بھارت نے ہمیشہ مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر امن پسند اور مہذب ملک ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔آج 76 برس گزرنے کے باوجود بھارت مختلف حیلے بہانوں سے اس سے انکار کرتا چلا آ رہا ہے اور اب تو ڈھٹائی سے بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ کہتا ہے۔ اس اٹوٹ انگ میں بسنے والے ایک کروڑ کشمیری بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نبردآزما ہیں۔ اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کشمیری بھارتی غاصب افواج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں مگر کشمیر میں بھارت سے آزادی کی تحریک ختم نہیں ہو سکی‘ یہ اب بھی جاری ہے۔