کالم

مہنگائی کی کوکھ بانجھ نہیں ہوتی

زندگی تھی یہ پیغمبری وقت بھی دیکھ لیا، محلات اور قلعوں میں غلام مشعلیں لے کر دوڑ رہے ہیں، شہنشاہوں کو راستے دکھائی نہیں دے رہے ،مفادات کی ہوس نے گلیاں تنگ کر دیں۔ ملکائیں اور شہزادیاں کنیزوں کو ڈھونڈ رہی ہیں ،درباری قصیدے پڑھ رہے ہیں مگر سننے والا کوئی نہیں۔ مخبر آ کر بتا رہے ہیں کہ رعایا ہاتھوں میں پرچیاں لیے بیلٹ بکسوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری نجومی شاہی وزیروں کو خبردار کر رہے ہیں کہ پانسہ پلٹنے والا ہے۔ قاضی بات نہیں مانیں گے، تاج اچھلنے والے ہیں، تخت گرائے جا سکتے ہیں وقت بہت کم ہے۔ ریڈ زون میں لگائے گئے کنٹینر گرمی میں پگھل رہے ہیں، منشی کہہ رہے ہیں کہ خزانہ خالی ہو رہا ہے، صوبیدار ادائیگیاں نہیں کر رہے ،کشکول خالی واپس آرہے ہیں، دربار روز لگانے سے بھی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ روزانہ اجرت پر آنے والے اب پہلے اجرت مانگتے ہیں۔ اپنے اتحادیوں سے ہوشیار رہیں ان کے تانے با نے دوسروں سے بھی ملے ہوئے ہیں۔ پردیس سے آنے والے سندیسے سے بھی بد شگونی پھیلا رہے ہیں ۔ آرٹیکل 6 کروٹیں بدل رہا ہے، مہنگائی کی کوکھ سے ریلیاں جنم لے رہی ہیں، عشق ہمیں پارلیمانی نظام سے ہے لیکن ہو س صدارتی نظام والی بلکہ شہنشاہوں والی کہ سب ادارے ہمارے غلام ہونے چاہئیں، اس پر کوئی پوچھنے والا نہ ہو، چیف جسٹس بھی ہماری جنبش ابرو پر فیصلہ دے ۔سپہ سالار ہمارے اشاروں پر چلے، چیف الیکشن کمشنر ہماری انگلیوں کا تابع ہو، رینجرز،پولیس ہمارے قبائلی لشکروں کی طرح خدمات انجام دیں۔ ہمارے عہدے کی کوئی میعادنہ ہو ،سرکاری خزانے سے خرچ کرنے کے کوئی قوانین نہ ہوں۔ ہمارا ذاتی مفاد قومی مفاد پر غالب ہو، آئین ،احتساب ،تعزیرات، قوانین پر ہمارا فرمان حاوی رہے ، تب سب کچھ درست ہے لیکن کوئی آ کر آئین کی شق یاد دلاے تو وہ غدار ہے۔ کوئی اگر ہمارے اقدام کو کسی قانون سے متصادم قرار دیتا ہے وہ فتنہ ہے، اس کا قلع قمع ضروری ہے یہ طرز فکر عصر حاضر کی پالیسی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہ سوچ ان کی بھی ہوگئی ہے جو برسوں جمہوری جدوجہد کے لیے جیلیں کاٹتے آئے ہیں، انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے جنہوں نے بے حساب مصائب کا سامنا کیا وہ بھی جو اٹھتے بیٹھتے آئین 1973 کی بات کرتے رہے ہیں ان سب کو شدت سے احساس ہوگیا ہے کہ واہگہ سے گوادر تک پاکستانی بیدار ہو چکے ہیں، اس لیے ان پر بھی خوف طاری ہے۔ آئین جو ریاست اور عوام کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے وہ بہت سوچ سمجھ کر بحث مباحثوں کے بعد بنتا ہے کہ لوگوں کی ذاتی خاندانی خواہشات، اختیارات کی ہوس کو ایک دائرے میں محدود کیا جائے۔ حکمران ہر قسم کے آتے ہیں اسے طول دینا چاہتے ہیں، ان کو آئین اس لیے منسوخ ہوتا ہے کہ فوجی ضابطہ، حکمنامے، فرامین وقت کی ضرورت کے مطابق تراشے جاتے ہیں ۔آئینی ترمیم کےلئے دو تہائی ارکان کی منظوری کی شرط بھی اس لئے رکھی گئی ہے کہ حکمران اپنے مفادات کے لیے آئین میں ردوبدل نہ کرتے رہیں۔ دوتہائی میں سب ہم خیال نہیں ہوتے۔ مختلف علاقوں کے مزاج رکھنے والے ترمیم کے مضمرات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ،بحث کرتے ہیں صدارتی نظام میں الیکشن کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام کی خوبی یہی ہے کہ اس وقت بھی انتخابات ہو سکتے ہیں، بجٹ اجلاس میں مطلوبہ اکثریت نہ ملے تو حکومت ٹوٹ جاتی ہے ،کسی بھی مسئلے پر کسی وقت قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے یا کوئی وزیراعلیٰ صوبائی اسمبلی تحلیل کر دے تو نوے دن کی مدت رکھی گئی ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں پارلیمانی نظام ہے وہاں یہ انتخابات ہوتے رہتے ہیں، ایسے ہنگامے ،ایسی گرفتار یاں، بے لباسیاں تشدد نہیں ہوتا۔ ان دنوں میں امن و امان کی صورتحال دہشتگردی اور دوسرے جن اسباب کو الیکشن نہ کرانے کا جواز بنایا جارہا ہے پارلیمانی نظام میں وہی الیکشن کے انعقاد کا جواز ہوتے ہیں ۔جب معیشت دن بدن ابتر ہو رہی ہے، ملک میں انتشار ہو ،رعایا کی بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتیں کنٹرول نہ کی جاسکیں ، اپنی کرنسی پاتال میں گر رہی ہو پارلیمانی نظام میں ایسی حکومت کا آخری وقت آجاتا ہے ۔ راستہ صرف اور صرف نیا الیکشن ہوتاہے آئین اس کےلئے مدت کا تعین کر چکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے