کالم

نظرےہ پاکستان اورقائد اعظم کے فرمودات

معزز قارئےن وطن عزےز مےں کچھ حلقے گاہے بگاہے سوال اٹھاتے ہےں کہ نظرےہ پاکستان کےا ہے ؟ہمارے ہاں لبرل حضرات اسلامی نظرےہ حےات کو اجتماعی حےات کی صورت گری کے طور پر کسی صورت تسلےم کرنے پر آمادہ نہےں ہےں اور وہ اسلام کو بحیثےت دےن اختےار کرنے کی بجائے اےک پرائےوےٹ مذہب کے طور پر ڈھالنا چاہتے ہےں ۔کےا قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے نظرےہ پاکستان کی صراحت و وضاحت مےں اےک سو اےک اقوال اور علامہ اقبالؒ کے ان گنت ارشاد ات کافی نہےں ۔کےا اس کے بعد کسی تشرےح کی ضرورت باقی رہتی ہے ۔ہمارے سےکولر حضرات قائد اعظمؒ کی 11اگست1947ءکی تقرےر سے درست مفہوم اخذ کرنے سے جان بوجھ کر گرےز پا رہتے ہےں ۔ےہ دانشور اس تقرےر کے دو جملوں کو بنےاد بنا کر ےہ ثابت کرنے پر بضد ہےں کہ قائد اعظمؒ پاکستان مےں اسلام کے نظام کا نفاذ نہےں چاہتے تھے ۔11اگست1947ءکو قائد اعظمؒ کی تقرےر مےثاق مدےنہ کی پےروی کا بہترےن شاہکار تھا ۔کےا بار بار قرآن پاک کو دستور پاکستان قرار دےنے والے قائد اعظم ؒ مغربی سےکولر ازم کو قبول کر سکتے تھے ۔قائد اعظمؒ نے منزل مراد پاکستان کے حصول کےلئے جس ہمت ،استقلال اور ضبط و احتےاط کا ثبوت دےا مستقبل کا مورخ بلا تامل پکار اٹھتا ہے کہ فی الواقعہ اےک قائد کو اےسا ہی ہونا چاہےے ۔اﷲ تعالیٰ نے انہےں بے پناہ علمی بصےرت اور سےاسی تدبر سے نوازا تھا دراصل ان کی قوت کا سب سے بڑا سر چشمہ اسلام تھا ۔ہمارے محبوب قائد جب انگرےز استعمار کے گڑھ لندن مےں مغربی تعلےم کے حصول کےلئے پہنچے تو وہاں بھی اس کالج کو منتخب کےا جس کے بلند و بالا دروازے پر دنےا کے عظےم قانون پےش کرنے والوں کی فہرست مےں سب سے اول نام حضور رسالت مآب کا تھا ۔قائد اعظمؒ اپنے آخری لمحات تک مدافعت اسلام کےلئے سر بکف رہے اور انہوں نے اپنی تمام صلاحےتےں اور توانائےاں اسلام کی سر بلندی کےلئے وقف کر دےں ۔معلوم نہےں آج ہمارے بعض دانشور اسلام کے نام سے کےوں گرےزاں ہےں ۔کوئی کہتا ہے کہ ےہاں جمہورےت پنپ سکے کوئی پاکستان کے قےام کو صرف اےک فلاحی مملکت کا قےام سمجھتا ہے کوئی کہتا ہے کہ پاکستان کا مطلب اےک سےکولر رےاست کا حصول تھا ظاہر ہے کہ ان بےانات سے جو نتےجہ نکلتا ہے وہ ےہ ہے کہ ہم اسلام کی بجائے سےکولر ازم کو اپنا مذہب بنائےں۔ہمارے دانشوروں ،مولوےوں ، سےاستدانوں اور طالب علموں کو اسلام کے معنی قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ سے سےکھنے چاہئےں ۔ آئےے قائد اعظمؒ کے ارشادات کی روشنی مےں تجزےہ کرتے ہےں کہ پاکستان کی ےہ اسٹےٹ کےوں حاصل کی گئی؟جب اﷲ تعالیٰ کسی کو ذہن رسا عطا فرماتا ہے تو قرآن مجےد کی وادی¿ نور سے اےک بار گزرنے سے ہی اس کی نگاہوں مےں وہ بصےرت عطا فرمائی جو بڑے بڑوں کو نصےب نہ ہوئی اسلام کے مفہوم کو بےان کرتے ہوئے قائد اعظم ؒنے فرماےا اگر کوئی چےز اچھی ہے تو عےن اسلام ہے جو چےز اچھی نہےں ہے وہ اسلام نہےں ہے کےونکہ اسلام کا مقصد عےن انصاف ہے ۔اس سال کراچی مےں فرماےا اسلام کے اصول عام زندگی مےں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہےں جس طرح تےرہ سو سال پہلے تھے ۔اسلام اور اس کے نظرےات نے ہمےں جمہورےت کا سبق دےا ہے ہر شخص سے انصاف ،رواداری اور مساوی برتاﺅ اسلام کا بنےادی اصول ہے ۔1948ءمےں چٹاگانگ مےں فرماےا اسلامی اقدار کو اپنانا انسانی ترقی کی معراج پر پہنچنے کےلئے ضروری ہے ۔1944ءکو مسلم قومےت کی اساس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماےا مسلمانوں کی قومےت کی بنےاد صرف کلمہ توحےد ہے نہ وطن نہ نسل ۔اسلام ہر مسلمان کےلئے اےک ضابطہ ہے جو اس کی حےات اس کے روےے بلکہ اس کی سالمےت اور اقتصادےات وغےرہ پر محےط ہے ۔19اگست1941ءکو جب قائد اعظمؒ حےدر آباد تشرےف لے گئے وہاں نوجوان طلباءنے ان سے کچھ سوالات کئے اس مکالمہ کو جناب مسٹر محمود (عثمانےہ ےونےورسٹی)نے محفوظ کر لےا ہے جو اورےنٹ پرےس کی وساطت سے شائع ہوا ہے ۔ےہ مکالمہ انگرےزی زبان مےں تھا لےکن اخبارات مےں اس کا ترجمہ شائع ہوا ، ملاحظہ فرمائےں کہ دےن کے متعلق مسٹرجناحؒ کے کےا خےالات تھے ۔مذہب اور مذہبی حکومت کے لوازم کی بابت سوال پر جواب دےا ،جب مےں انگرےزی زبان مےں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورے کے مطابق لا محالہ مےرا ذہن خدا اور بندے کی باہم نسبت اور رابطہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے لےکن مےں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے نزدےک مذہب کا ےہ محدود ےا مقےد مفہوم ےا تصور نہےں ہے مےں نہ تو کوئی مولوی ہوں اور نہ مجھے دےنےات مےں مہارت کا دعویٰ ہے البتہ مےں نے قرآن مجےد اور قوانےن اسلام کے مطالعہ کی اپنے طور پر کوشش کی ہے اس عظےم الشان کتاب کی تعلےمات مےں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہداےات موجود ہےں ۔زندگی کا روحانی پہلو ہو ےا معاشی غرضےکہ کوئی شعبہ اےسا نہےں جو قرآنی تعلےمات کے احاطہ سے باہر ہو ۔قرآن حکےم کی اصولی ہداےت اور سےاسی طرےقہ کار نہ صرف مسلمانوں کےلئے بہترےن ہےں بلکہ اسلامی حکومت مےں غےر مسلموں کےلئے حسن سلوک اور آئےنی حقوق کا جو حصہ ہے اس سے بہتر تصور ناممکن ہے ۔اس سوال پر کہ اشتراکی حکومت کے بارے مےں آپ کی کےا رائے ہے ؟ جواب دےا ،اشتراکےت ،بالشوےت ےا دےگر اسی قسم کے سےاسی اور معاشی مسلک دراصل اسلام اور اس کے نظام کے اجزاءکا سا ربط اور تناسب و تعاون نہےں پاےا جاتا ۔ترکی حکومت تو اےک مادی اسٹےٹ ہے کےا اس سے اسلامی حکومت مختلف ہے ؟ اس سوال کا ےوں جواب دےا ترکی کی حکومت پر مےرے خےال مےں مادی حکومت کی سےاسی اصطلاح اپنے پورے مفہوم مےں منطبق نہےں ہوتی ۔اب رہا اسلامی حکومت کے تصور کا ےہ امتےاز پےش نظر رہنا چاہےے کہ اس مےں اطاعت وفا کےشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کےلئے تعمےل کا مرکز قرآن مجےد ہے ۔قائد اعظمؒ نے بحیثےت گورنر جنرل فروری 1948ءمےں اہل امرےکہ کے نام پےغام مےں پاکستان کے دستور کے متعلق فرماےا تھا پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی پاکستان کا آئےن مرتب کرنا ہے مےں نہےں جانتا کہ اس آئےن کی شکل کےا ہو گی لےکن مجھے ےقےن ہے کہ وہ اسلام کے بنےادی اصولوں کا آئےنہ دار جمہوری آئےن ہو گا ۔اسلام کے ےہ اصول آج بھی اسی طرح عملی زندگی پر منطبق ہو سکتے ہےں جس طرح وہ تےرہ سو سال پہلے ہو سکتے تھے ۔اسلام ہمےں وحدت انسانےت اور ہر اےک کے ساتھ عدل و دےانت کی تعلےم دےتا ہے ۔ آئےن پاکستان کے مرتب کرنے کی جو ذمہ دارےاں اور فرائض ہم پر عائد ہوتے ہےں اس کا ہم پورا پورا احساس رکھتے ہےں ۔قائد اعظمؒ نے 7اپرےل 1948ءکو گورنمنٹ ہاﺅس پشاور مےں اےک قبائلی جرگہ کے ساتھ گفتگو کے دوران فرماےا ہم مسلمان اےک خدا اور اےک رسول¿ پر اےمان رکھتے ہےں اس لئے ہمےں اےک قوم کی حےثےت سے صف بستہ کھڑا ہونا ہو گا ۔انہوں نے 14فروری 1948ءکو سبی دربار مےں خطاب کرتے ہوئے فرماےا مےرے نزدےک ہمےشہ اسلامی ڈےموکرےسی کا اصول رہا ہے ۔ےہ مےرا اےمان ہے کہ ہماری نجات کا راز ان سنہرے اصولوں کے اتباع مےں ہے جنہےں ہمارے رسول کرےم نے عطا فرماےا ۔لہذا ہمےں اپنی ڈےمو کرےسی کی بنےاد حقےقی اسلامی نظرےات اور اصولوں پر رکھنی چاہےے ۔ان تصرےحات کی روشنی مےں قائد اعظم ؒ کے تصور پاکستا ن کے متعلق نظرےات واضح ہو جاتے ہےں اور قائد اعظمؒ کے نزدےک قےام پاکستان کا مقصد اےک مسلمان رےاست کا قےام تھا جس مےں ” دےن مبےن“ کے طے کردہ اصول و ضوابط سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہو جس مےں مساوات اور عدل و انصاف کو بالا دستی حاصل ہو اور کسی بھی استحصالی قوت کو کسی کا استحصال کرنے کا حق نہ ہو بلکہ ےہ اےسا خطہ زمےن ہو جس سے پوری دنےا رہنمائی حاصل کر سکے لےکن افسوس سابقہ ادوار مےں جس انداز مےں نظام شرےعت کو پےش کےا گےا اس سے نہ صرف ملک مےں اسلامی تحرےکوں اور مقاصد کو نقصان پہنچا بلکہ پوری دنےا مےں اسلام کا مذاق اڑا اور اسلام کو جبروظلم سے عبارت اےک مذہب کے طور پر روشناس کرانے کا اپنے ہاتھوں سامان کےا گےا ۔تارےخ کے ان حقائق اور فرمودات قائد اعظمؒ کی روشنی مےں ےہ بات عےاں ہے کہ محبوب قائد جذبہ اسلام سے سرشار تھے وہ آفتاب نبوت کی اہمےت و فضےلت ،قرآن و سنت کے تقدس اور ان کی فوقےت سے بخوبی گاہ تھے۔ آپ مملکت خدا داد کو اےک اسلامی رےاست بنانا چاہتے تھے ہندوستان سے الگ ہونے کی ضرورت ہمےں کےوں محسوس ہوئی جبکہ ہم صدےوں سے ہندوﺅں کے ساتھ امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہ رہے تھے ۔ہندوستان مےں اسلام مذہب کی حےثےت مےں باقی رہ سکتا تھا مسلمانوں کی جان و مال کی قربانےاں اور ہزاروں با عصمت خواتےن کی عزتوں کی پامالی صرف اس لئے گوارا کی تھی کہ آزاد پاکستان مےں اسلام اےک دےن کی صورت مےں منتقل ہو گا اسی لئے آزاد مملکت کے حصول کا مطالبہ کےا گےا اسی کو نظرےہ پاکستان کہتے ہےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے