پاکستان ایک آزاداورخودمختارریاست ہے جس کااپناایک آئین، قوانین، ضابطے اورنظام موجود ہے جس کے تحت قانون نافذ کرنے والے ادارے، انصاف فراہم کرنے والے ادارے اور قومی وصوبائی اسمبلیوں جیسے ادارے موجود ہیں ان اداروں میں بنائے جانے والے قوانین پر انتظامیہ عمل کرواتی ہے تاکہ ملک میں ہرچیز قانون وآئین کے ضابطے کے تحت ہوسکے ۔ مگر بدقسمتی سے اَسی کی دہائی میں جب سوویت یونین نے افغانستان پرچڑھائی کی تولاکھوں افغان مہاجر وں نے پاکستان کارخ کیا اوریہاں آکرپناہ لی۔ مگر ان مہاجرین کی آمد کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کلاشنکوف کلچربھی پھیلا اور چونکہ سوویت یونین کے خلاف مختلف افغان گروپس جہاد میں مصروف تھے اس لئے ان کے ثمرات سیاسی ومذہبی جماعتوں پر بھی پڑے اور انہوں نے بھی اپنے مسلح ونگ بنالیے جن کوبدقسمتی سے روکا نہیں گیا اورپھریہ کلچر مختلف قبائل کے اندر بھی پھیلا جس کے باعث معاشرے میں لاقانونیت اوربدامنی کی فضاءپیدا ہوئی۔ پاکستان میں طالبان کے نام پر لاقانونیت پھیلانے کی کوشش کی گئی مگر ہماری بہادراو رمسلح افواج نے ان کی اس سرکشی اور قانون شکن سرگرمیوں کو توڑنے کے لئے باقاعدہ طورپر ایک آپریشن کاآغاز کیا جو ابھی تک جاری وساری ہے ۔بحیثیت ایک پاکستانی ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے کسی مسلح جتھے، گروہ یاگروپ کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے کیونکہ یہاں پر باقاعدہ طورپرقانون نافذ کرنے والے ادارے بہتر انداز میں کام کررہے ہیں۔ اسی حوالے سے گزشتہ روز نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت کسی شخص اور گروہ کو پرتشدد کارروائیوں کی اجازت نہیں،ملک میں امن کیلئے سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر قانون سازی کرناہوگی، ہمیں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں، پولیس نے ملک میں امن کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں ہم انکے مقروض ہیں،پولیس کے امیج بہتر بنانے کیلئے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم نے ادارہ جاتی نظم و نسق برقرار رکھنے پر پولیس فورس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مقدس فریضہ ہے اور کوئی بھی معاشرہ افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ انارکی ناقابل قبول ہے۔پولیس فورس ملک کو اس انارکی سے بچانے کےلئے محافظ ہے اور معاشرے کی حفاظت کےلئے سپاہی سے لے کر افسر تک فرنٹ لائن فورس کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہے۔ گہری خود شناسی کی ضرورت ہے کہ کس طرح پولیس کی کارکردگی کی صورتحال اور امیج کو مزید بہتر بنایا جائے، تبدیلیاں رویہ میں تبدیلی کے ساتھ آ سکتی ہیں نہ کہ محض یونیفارم کو تبدیل کرنے سے تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ پولیس فورس کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ قوم پر فورس کا بہت قرض ہے اور خاص طور پر دیگر صوبوں کے علاوہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان پولیس کی قربانیوں کا ذکر کیا۔میں نے ملک میں صفوت جیسی نامور شخصیت شاید ہی دیکھی ہو۔ نرسنگ اور پولیس کے شعبوں کو وسائل فراہم کرکے اور ان میں اعتماد پیدا کرکے انہیں دوبارہ برانڈ کرنے کی ضرورت ہے،کسی بھی قسم کے کام کرنے کےلئے خود اعتمادی اہم ہے۔ پولیس فورس معاشرے کو برائیوں سے پاک کرتی ہے۔ مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے پولیس فورس کو مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے شہید پولیس اہلکاروں کے دو خاندانوں کو درپیش مسائل بیان کیے جنہوں نے ان سے رابطہ کیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا گیا جس کے وہ مستحق تھے اور سوات میں شہید ہونے والی ایک پولیس اہلکار شبانہ کا بھی حوالہ دیا۔نگران وزیراعظم نے مقامی چیلنجز کو سمجھنے اور موثر قانونی ڈھانچہ پر گفتگو کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔نگران وزیراعظم نے بتایا کہ دہشت گردی کےخلاف جنگ میں 90ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں ، ملک میں امن کیلئے سیاسی جماعتوں کوملکرقانون سازی کرنی چاہیے، آج تک کسی جماعت نے جبری گمشدگی سے متعلق قانون سازی نہیں کی اور جب ضرورت پڑتی ہے تو جس طرح قانون سازیاں کی جاتی ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ انتشار اور بدامنی کا متحمل نہیں ہوسکتا، آئین کے تحت کوئی شخص یاگروہ پرتشددکارروائیوں میں ملوث نہیں ہوسکتا ۔ قانون کا نفاذ پولیس کا کام ہے، بدامنی کیخلاف قانون نافذکرنےوالےادارے صف اول میں نظرآتے ہیں۔ وزیراعظم نے پولیس فورس کے اندر ادارہ جاتی ربط کو مضبوط بنانے اور پولیس فورس کےلئے فلاحی پروگراموں میں مزید اضافہ کرنے کی تجویز بھی دی۔ سیکیورٹی میں تیزی سے تبدیلیاں پولیس فورس کےلئے ایک چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ دہشت گردی ایک وجودی خطرہ بن رہی ہیںجس کا مقابلہ جدید ترین تکنیکی آلات کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔
ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا محاسبہ ہونا چاہیے
یہ بات تو اب کھل کرسامنے آچکی ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کو ایک سازش کے تحت اقتدار سے ہٹاکرجیل بھجوایاگیا اور پھر ان پر بے بنیاد مقدمات قائم کرکے انہیں قومی اسمبلی سے نااہل کروایاگیا جب میاں نوازشریف اقتدارسے رخصت ہوئے تو انہوں نے قوم سے ایک سوال کیاکہ مجھے اقتدار سے کیوںنکالاگیا،میاں نوازشریف کے بعدایک ناتجربہ کارسیاستدان کو وزارت عظمیٰ کے منصب پرلاکربٹھادیاگیاجس نے چارسال کے دوران ملک کی جو حالت کی اس کے بارے میں لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ قوم کابچہ بچہ جانتا ہے کہ گزشتہ چارسالوں میں ملک کاستیاناس نہیں بلکہ سواستیاناس کیاگیااورپھرپاکستان کے اجڑنے کاتماشہ بھی دیکھاگیا جب ملک ڈیفالٹ کے قریب جاپہنچاتو اس کے بعد سخت فیصلے کرکے ملک کوبہتری کی طرف گامزن کرنے کے لئے کچھ اقدامات کئے گئے ۔نوازشریف کے خلاف سابق حکومت نے بے بنیاد اور جھوٹے پروپیگنڈے کئے حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ جب عدالت نے انہیں قید کی سزا تو انہوں نے اپنی پیاری اہلیہ کو بسترمرگ پرچھوڑ کروطن واپس آکرگرفتاری پیش کی۔قانون پر عمل کی ایک بہترین اورتاریخی مثال پیش کی۔اب ایک بارپھرانہوں نے قوم سے سوال کیاہے کہ ماضی میں ان کی حکومتو ں کو کیوں برطرف کیاگیاجبکہ یہ حکومتیں ملک کو ترقی کی جانب گامزن کررہی تھیں مگر اچانک چائے کی پیالی میں طوفان برپاکرکے انہیں ان کے منصب سے ہٹادیاگیا،کیااس حوالے سے سپریم کورف آف پاکستان کوئی فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنائے گی جو ان تمام عوامل کاپتہ چلاسکے۔ گزشتہ روزمسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف نے پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ہمیں بتایا جائے 93 اور 99 میں کیوں نکالا؟ کیا کارگل جنگ چھیڑنے کا سوال کرنے پر نکالا گیا؟ قوم نے گزشتہ 4 برس میں مشکل دور دیکھا ہے، کچھ کرداروں نے ترقی کرتے پاکستان کو ٹھپ کر کے رکھ دیا، سمجھ نہیں آتی ایک اناڑی کے ہاتھ میں باگ ڈور کیسے دیدی جاتی ہے، ملک کو اس حال تک پہنچانے والوں کا محاسبہ ہونا چاہیے،شہبازشریف ملک نہ سنبھالتے تو ڈیفالٹ کر جاتا ، سمجھ نہیں آتی۔ہم نظروں سے اوجھل لیکن دل کے بہت قریب رہے ہیں، اپنے کسی دوست اور ساتھی کو بھولا نہیں ہمیشہ یاد رکھا، آج بھی دعا ہے کہ اللہ اس قوم کو مشکلات سے نکالے۔ قوم نے پچھلے 4سال بہت مشکل دور دیکھا، ہمارے دور میں معیشت بہتر اور ترقی عروج پر تھی اور ہمارے دور میں ہر لحاظ سے معاشرہ آگے بڑھ رہا تھا لیکن کچھ کردار ایسے آئے جنہوں نے دوڑتے پاکستان کو ٹھپ کرکے رکھ دیا۔قوم ادراک کرے معاشی بے نظمی 2019سے شروع ہوئی اور 2022تک ملک میں ہرچیز کا بھٹابیٹھ گیا تھا، 2013 سے 2017تک ہمارے دور میں ملک ترقی کررہا تھا، اچھے بھلے لوگوں کو نکال کر ملک اناڑی کے حوالے کیا گیا،017میں باتیں شروع ہوگئی تھیں کہ اگلی مدت بھی(ن)لیگ جیت رہی ہے، مجھے کہا گیا تھا کہ کہہ دیں لوڈشیڈنگ 6 ماہ میں ختم کردیں گے، میں نے جواب دیا کہ 6ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوسکتی کیسے کہہ دوں، میں نے کہا کہ کوئی ایسی بات نہیں کروں گا جیسے ساکھ خراب ہو، میں نے الیکشن مہم میں کہا کہ پانچ سال میں لوڈشیڈنگ ختم کریں گے، میں قوم کیساتھ دھوکہ ، فریب اور فراڈ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آج کسی کی جرا¿ت نہیں کہ پاکستان پر چڑھ دوڑے یا میلی آنکھ سے دیکھے، ہم نے معاشی، دفاع اور خارجہ ہر فرنٹ پر کارکردگی دکھائی، ہمارے دور میں بھارت کے دو وزیراعظم مودی اور واجپائی پاکستان آئے، اب ہمیں اپنے معاملات بھارت اور افغانستان کے ساتھ بھی ٹھیک کرنے ہیں۔
اداریہ
کالم
نگران وزیراعظم کاایک تقریب سے خطاب
- by web desk
- دسمبر 11, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 579 Views
- 1 سال ago