کالم

پاکستانی صحافت، ذمہ داریاں اور چیلنجز

پاکستان پریس کلب یوکے کے زیر اہتمام برمنگھم میں ایک سیمینار بعنوان پاکستانی صحافت، ذمہ داریاں اور چیلنجز منعقد ہوا۔ مہمان خصوصی فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ تھے جبکہ صدارت ارشد راچیال اور نظامت ساجد یوسف نے کی شرکا میں سابق ایڈیٹر جنگ لندن ظہور نیازی، یعقوب نظامی، شبیر شاہ پاکستان سے مظہر عباس، ناصر زیدی، اظہر سجاد، اور دیگر نے آن لائن خطاب کیا۔ پاکستان اور دنیا بھر میں ہونے والی صحافت کے مختلف پہلوو¿ں کو زیر بحث لایا گیا۔ میری کوشش ہوگی کہ جتنا ممکن ہوسکے اس حوالے سے میں قارئین کرام حکومتی ارباب اختیار اور صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کے سامنے برطانیہ میں اپنی نوعیت کے اس سیمینار کی رواداد اپنے کالموں میں بیان کرسکوں آج میں اس کالم میں معروف پاکستانی مصنف یعقوب نظامی جو اب مستقل برطانیہ میں رہتے ہیں انکے خطاب کے مندرجات کو آخر میں اپنی معروضات کے بعد آپکے سامنے پیش کروں لیکن اس پر پہلے میرا نقطہ نظر پاکستانی صحافت، ذمہ داریاں اور چیلنجز پر کچھ اس طرح کا ہے۔صحافت عوامی رائے کو منظر عام پر لانے، حکمرانوں کو احتساب میں لانے اور ایک معلوماتی معاشرت کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مگر صحافت کو اپنی ذمہ داریاں اور چیلنجز درپیش ہیں۔ پاکستانی صحافت اور اسکی ذمہ داریوں، اور اسکی روکاوٹوں کے اہم پہلوو¿ں پر غور کرتے ہیں تو کچھ اس طرح کا منظر نامہ سامنے رکھنا پڑتا ہے۔1: صحافت کی سب سے اہم ذمہ داری عوام کو درست اور بروقت معلومات فراہم کرنا ہے تاکہ شہریوں کو ان کی زندگیوں اور ان کے ملک کے بارے میں معلوماتی فیصلے کرنے کی اہلیت پیدا کی جاسکے۔2.جمہوری اقدار کو برقرار رکھنا ۔ 3 : آئین کی رو سے صحافت کو جمہوری اقدار کیمطابق حقِ اظہار آزادی کو یقینی بنانا کہ معاشرے کے تمام حصوں کی آواز سنی جائے ۔ احتساب کا عمل۔ صحافی حکومتی افسران، عوامی شخصیات، اور اداروں کو انکے اعمال اور فیصلوں کےلئے احتساب میں رکھتے ہیں۔ اس میں فساد، ناکامی،نقصان اور غلط عمل کا پتہ لگانے کےلئے تحقیقاتی رپورٹنگ شامل ہے ۔4.صحافت کو اپنے دائرہ کار میں معاشرتی تنظیموں، مختلف نسل، مذاہب، اور ثقافتی پس منظر کو شامل کرنا چاہئے، تاکہ شہریوں کے درمیان اشتراک اور افہام کو بڑھایا جا سکے۔5.صحافیوں کا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنا ضروری ہے تاکہ محروم طبقات کی حمایت کرنے، اور ان کی آواز کو بڑھانے کی ذمہ داری پوری ہو جس سے مثبت تبدیلی لائی جا سکے۔جب چیلنجز کی بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے منظر نامہ کچھ اس طرح کا سامنے آتا ہے.1. پاکستان میں صحافیوں کو اکثر سرکاری اور نان سٹیٹ ایکٹر سے خطرات، سختیوں اور زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سچ سامنے نہ آئے.3. حکومت اور طاقتور حلقے یا مقتدرہ معلومات کو روکنے کےلئے میڈیا پر دبا ڈالتے ہیں یا میڈیا ہاسز کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں، اشتہارات بند کردیتے ہیں آزاد رپورٹنگ کے دائرہ کار کو محدود کرتے ہیں ۔ جس سے عوام میں صحافیوں اور میڈیا ہاوسزز کی کریڈیبلٹی متاثر ہوتی ہے چونکہ سوشل میڈیا کے انقلاب سے حقیقت پھر بھی برحال عوام کے سامنے آجاتی ہے جبکہ اسی خوف سے ٹویٹر بند ہے اور اعلی عدلیہ کے جج صاحبان اور اعلی سرکاری اہلکار سوشل میڈیا کے خلاف کھلے عام بات کرتے نظر آئے ہیں۔.3.پاکستان میں صحافیوں کو دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی، اور سیاسی فساد جیسے حساس مسائل پر رپورٹ کرنے کےلئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے، جس سے ان کی جان پر حملے، اغوا، اور حتی کہ قتل تک کا سامنا ہوتا ہے۔4.صحافیوں کو مناسب تربیت، اور وسائل کی کمی ہوتی ہے، جو ان کی بہترین معیاری، تحقیقاتی صحافت پیدا کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ ڈالتی ہے ۔ تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستانی صحافت عوام کو مفید معلومعات فراہم کرنے، مشغول کرنے، اور طاقت دینے کی بھاری ذمہ داری اٹھاتی ہے، مختلف چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے ۔ ان رکاوٹوں کو پار کرنے اور اپنے فرائض کو سر انجام دینے کےلئے صحافیوں کو حکومت، شہریوں، اور بین الااقوامی طور پر زیادہ حمایت کی ضرورت ہے تاکہ صحافتی آزادی کی حفاظت، پیشہ ورانہ کارکردگی کی بڑھتی ہوئی سطح ، اوربلند ترین اخلاقی معیارات کو مضبوط بنایا جا سکے۔ تب ہی پاکستانی صحافت حقیقی معنوں میں قوم میں آئین،جمہوریت اور احتساب کی روشنی میں مضبوط بن سکتی ہے۔اس سارے عمل میں جہاں ہم آئین کی بالادستی انسانی حقوق کی پاسداری اور آزادی اظہار رائے کے حقوق کی بات کر رہے ہیں ہمیں ذمہ دارانہ صحافت کے ذریعے پاکستان کے وسیع تر مفادات کو بھی مقدم رکھنا ہوگا تاکہ ہمارے ملک کا مثبت چہرہ سامنے آئے اور ہم بھی ایک آزاد و خود مختار اور جمہوری ملک کی حیثیت سے ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل ہو سکیں ۔ یعقوب نظامی کو کالم ملاحظہ فرمائیں۔صحافت ایک انتہائی معزز پیشہ ہے۔ مولانا ظفر علی خان ، مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا غلام رسول مہر ، مولاناچراغ حسن حسرت، شورش کاشمیری، فیض احمد فیض اور محمود ہاشمی جیسے کئی نام ور لوگوں نے ایک ہی وقت میں صحافت اور ادب میں اونچا مقام حاصل کیا۔یہ لوگ باریش نہیں تھے لیکن علم دوستی کی بدولت مولانا کہلاتے تھے۔
(……..جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri