کالم

چودہ اگست کا پیغام

دراصل چودہ اگست کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ ملک پاکستان کیسی کیسی قربانیوں دینے کے بعد وجود میں آیا ، یہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ کون سے حالات تھے جو عملاً قیام پاکستان کے ظہور کا سبب بنے ، یہ دن ہمیں آزادی کی شکل میں ملنے والی اس نعمت کی قدر کرنے پر آمادہ کرتا ہے جس کا شکر موجودہ نسل یا پھر نئی آنے والی نسل اس انداز میں نہیں کررہی جس کی بجا طور پر ضرورت ہے ، یقینا تاحال ہم قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے میں ناکام ہین ، سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں رہنے کے باوجود ہمارےمفادات مکمل طور پر اس ملک کے ساتھ وابستہ نہیں ، ہم میں سے بہت سارے لوگوں کے نزدیک ان کا خاندان ،برداری، نسل، زات اور زبان ملک سے کہیں بڑھ کر ہے ، یقینا انفرادیت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر اجتماعیت کسی صورت نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ، بظاہر پاکستانیوں کی اکثریت رائج نظام کی مخالفت کرتی ہے ، اس ضمن میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ملک کا موجودہ انتظام بدستور لوگوں کی داد رسی کرنے پر آمادہ نہیں ، سوال یہ ہے کہ بطور قوم ہم نے کب اور کیسے ملکی سسٹم کو بہتر بنانے کی کوشش کی ، ہم اس حقیقت سے کیوں نظر یں چراتے ہیں کہ جب کسی معاشرے کے افراد میں بہتری نمایاں آتی ہے تو اس کا اثر ہر شعبہ میں دکھائی دیتا ہے، پاکستان کو اگر بہتر بنانا ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے حصہ کی زمہ داری ادا کرے، تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قوموں نے تعمیر وترقی کا سفر اچانک طے نہیں کیا بلکہ اس کے لیے انتھک محنت اور مستقل مزاجی کا راستہ اختیار کیا گیا ، یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا ہمیں اپنی منزل کا پتہ ہے ، اسے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ بطور قوم فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم پاکستان کو کیسا ملک بنانا چاہتے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ کیا ہمارے زہن میں ترکی کا ماڈل ہے یا پھر سعودی عربیہ کا ، یقینا طالبان کا افغانستان کسی بھی باشعور پاکستانی کی منزل نہیں ہوسکتا، ایک بات طے ہے کہ ہم پاکستانی دراصل برصغیر پاک وہند کے کلچر سے ہی جڑے ہیں، اسی خطے کی ثقافت کے پیدوار ہمارے آباو اجداد تھے اور ہم بھی ہیں ، یہ بھی سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ تقسیم ہند کا مطلب ہرگز یہ نہ تھا کہ ہم اپنے درمیان نفرت اور حقارت کی ایسی دیوار کھڑی کریں جس کو عبور کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو جائے، مقام شکر ہے کہ پاکستان اور بھارت سمیت بنگہ دیش کے ہوشمند افراد یہ یقین رکھتے ہیں کہ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات ہی جنوبی ایشیا کے کروڈوں شہریوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں، اس پس منظر میں چودہ اگست کے دن ہمیں قائد اعظم کے اس فرمان کی بھی توثیق کرنے کی ضرورت ہے جس میں انھوں نے پاکستان اور بھارت میں دوستانہ تعلقات کی اہمیت اور افادیت پر زور دیا تھا ، یقینا پاکستان کا قیام محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہ تھا بلکہ بانیان پاکستان چاہتے تھے کہ نئی مملکت نہ صرف اپنے شہریوں کی زندگی میں بہتری لانے کا سامان پیدا کرے بلکہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے بھی سیاسی اور معاشی مفادات کا تحفظ کرے ، یوں ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں چودہ اگست کو اس تجدید عہد کے دن کی شکل دینی ہوگی جسے ہم بڑی حد تک فراموش کر بیٹھے ہیں ، حوصلہ افزا ہے کہ آج شہبازشریف کی شکل میں پاکستان میں ایسا شخص وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہے جو ملک کو تیزی سے ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے، شہبازشریف ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے کہ وہ پاکستان کو ایسی ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہے جہاں آئین اور قانون کا بول بالا ہو،وزیر اعظم نہ صرف پاکستان کے اغراض و مقاصد سے مکمل طور پر اگہی رکھتے ہیں بلکہ ارض وطن کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں بھی لانے کے متمنی ہیں ، ہم جانتے ہیں کہ تعمیرہمیشہ مشکل اور کٹھن ہوا کرتی ہے اس کے برعکس تخریب آسان ، آج پاکستان کو آزاد ہوئے سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ، کچھ لوگوں کے مطابق ہم نے خاطر خواہ ترقی نہیں کی اس کے برعکس ہوشمند پاکستانی پرامید ہیں کہ ملک بتدریج آگےبڑھ رہا ہے ، ہمیں خالق کائنات کا شکر گزار ہونا چاہے کہ اس نے ہمیں ہماری خامیوں سے آگاہ کررکھا ہے، آج خبیر تا کراچی پاکستانیوں کی اکثریت جانتی ہے کہ ہمارے بڑے اور نمایاں مسائل کیا ہیں اور انھیں کس طرح سے حل کیا جاسکتا ہے ، درحقیقت تمام چیلنجز کا حل آئین اور قانون پر عمل کرنے میں ہے ، وطن عزیز میں جمہوری نظام اپنی افادیت یوں ثابت نہیں کرسکا کہ ابھی تک ہمارے ہاں سسٹم پختہ نہیں ہوا، اگر مگرکے باوجود یہ کم اہم نہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت جمہوریت کے ساتھ وابستہ ہے ، تاریخی طور پر سچ یہی ہے کہ پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ظہور میں آیا چنانچہ ہم اسی صورت آگے بڑھ سسکتے ہیں جب بطور قوم ہماری رگوں میں جمہوریت کا خون ہی دوڈے گا بصوریت دیگر ہم قائد اعظم کے خواب کو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں کرسکیں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے