محرم سفید لباس کو سیاہ لباس میں تبدیل کرنے کا نام نہیں بلکہ سیاہ کردار کو سفید کردار میں بدلنے کا نام ہے۔ عالم اسلام کے نامور سکالر کا یہ قول اپنے اندر بے پناہ معنویت رکھتا ہے۔ نام نہاد دعوی داروں کو سمجھ لینا چاہیے کہ کوفے میں بیٹھ کر کربلا سجایا جاتا ہے اور نہ نفوس پر قابو پائے بغیر حسینی بننا ممکن۔ اس سے بڑی حرماں نصیبی اور کیا کہ ھم اپنے چھ فٹ کے وجود کو تو حسینی طرز میں ڈھال نہ سکیں مگر باتیں کربلا کی اور باطل سامراج سے ٹکرانے کی۔ ھم اپنے وجود کے اندر پلنے والے یزید سے چھٹکارا پائیں گے تو حسینی بنیں گے نا۔ کہ ہمیں تو کہیں روایات آڑے آتی ہیں تو کہیں رسوم، کبھی سیاسی و مفاداتی بندشیں روکاوٹ بنتی ہیں تو کبھی شدت پسندی۔ نماز بے حضور ہے اور سجود بے لذت، بصد احترام اور معذرت کے ساتھ ایسے میں دعوی حسینیت مکر و فریب کے سوا کچھ نہیں
یزیدیت ہے کیا۔ گرچہ یزید ایک فرد تھا مگر اس کی وجہ شہرت نفرت، عناد، جھوٹ، بہتان، ظلم، شعائر اسلام کی پامالی، بے ادبی، ناانصافی، تشدد و انتہا پسندی، دین فروشی، سیاسی غارت گری، بدکرداری۔ اس کی ضد حسینیت۔ آج کے دن اگر ھم اپنے گریبان میں جھانکیں اور چند لمحوں کو افعال و کردار بارے سوچیں تو ہم اپنے اندر پلتے یزید کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں مگر چونکہ حسینیت کو ہم نے بطور فیشن اپنا رکھا پے اور پھر امام نے نوح انسان کے لیے دوسرا راستہ چھوڑا ہی نہیں۔ وگرنہ ہمارے احوال کسی طور حسینیت سے مطابقت رکھتے ہیں نہ موافقت۔ عاشورہ محرم کی مناسبت سے امام عالی مقام کی بارگاہ میں عقیدت کے پھول نچھاور کرنا مقصود تھا۔ شہدائے کربلا کے مناقب کی اوقات ہے نہ انکی شان کے لائق الفاظ میسر، سو نامور شعرا کی مناقبت کا سہارا لینا ہی مناسب سمجھا کہ اتنی عظیم بارگاہ میں عقیدتوں کا خراج کوئی آساں نہیں مگر اہل عزم و وفا نے اپنے تئیں مقدور بھر کوشش کی۔ علامہ اقبال اس باب میں اردو و فارسی میں رباعیات کہیں۔ ابھی فقط اردو کلام کے موتی پیش خدمت ہیں
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
تو کہیں فرماتے ہیں کہ
بیاں سر شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے
مسلمانوں کو قبلہ روضہ شبیر ہو جائے
نصیر ملت کے نعتیہ کلام ہوں یا اہل بیت کی شان میں منقبت، دل جھومتا ہے اور کیفیات طاری
پیغمبری کو بازوئے حیدر پہ ناز ہے
حیدر کو خون سبط پیمبر پہ ناز ہے
زینب کو جرات دل اکبر پہ ناز ہے
اکبر کو بے زبانی اصغر پہ ناز ہے
جبریل ہے نثار ، نگاہ بتول پر
نازاں ہے چرخ جرات آل رسول پر
اہل قلم نے شہدائے کربلا کی یاد میں جتنا لکھا وہ لافانی ہے۔
کربلا حریت فکر فکر کا پہلا منشور
مر کے جینے کا دیا جس نے قوموں کو شعور
حق و انصاف کا کسی ملک میں چھڑتا ہو ساز
کان سنتے ہیں حسین ابن علی کی آواز
یہ وہ ماضی ہے کہ جو حال ہے آئندہ ہے
کربلا تینوں زمانوں کی نمائندہ ہے
کسی نے عقیدت کے پھول یوں بکھیرے
کربلا ملک نہیں قوم نہیں شہر نہیں
کربلا قہر سے بنتی ہے مگر قہر نہیں
کربلا فرقہ پرستی کی کوئی نہیں
علقمہ چشمہ عرفان ہے کوئی نہر نہیں
جملہ اقوام کی وحدت کا شارہ ہیں حسین
عظمت حضرت آدم کا منارہ ہیں حسین
غرضیکہ جس نے محبت آل بیت سے حصہ پایا تو ہی لکھا
امتیں ہیں تو علامات امم بھی باقی
دہر باقی ہے تو اس دہر کے غم بھی باقی
کربلا آج بھی باقی ہے ستم بھی باقی
مگر عباس بھی باقی ہے علم بھی باقی
شمر باجوں پہ عمر سعد کے سر دھنتے ہیں
لوگ پھر بھی علی اکبر کی اذاں سنتے ہیں
حفیظ جالندھری شعر و ادب کی دنیا کا معتبر نام، کہتے ہیں۔
ادھر سپاہ شام ہے ہزار انتظام ہے
ادھر ہیں دشمنان دیں ادھر فقط امام ہیں
مگر عجب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حسین ہیں، نبی کا نور عین ہیں
مرثیہ خوانی اور منقبت حسین میں محسن نقوی کیسے پیچھے رہتے۔
جہاں عزم و وفا کا پیکر،خرد کا مرکز جنوں کا محور
جمال زہرا،جلال حیدر،جمیل انساں نصیر داور
جبین انسانیت کا جھومر،عرب کا سہرا عجم کا زیور
حسین تصویر انبیا ہیں، نہ پوچھ میرے حسین کیا ہیں
ڈاکٹر شاہد رضوی کی رباعی عقیدت و احترام کا کمال مظہر
پیارے نبی کے بالیقیں وہ نور عین ہیں
شیر خدا کے لال ہیں زہرا کے چین ہیں
ہے داستاں کربلا بس اتنی مختصر
اک تھا یزید اور اک مولا حسین ہیں
شفیق خلش کی روح پرور منقبت
تاحشر ہوگئی وہ عبادت حسین کی
بے مثل راہ حق میں شہادت حسین کی
کوشش کریں یزید کے جتنے بھی پیروکار
جاتی ہے کب دلوں سے ارادت حسین کی
لاریب جب تک چاند تارے باقی اہل ایماں اہل بیت اطہار سے عقیدتوں کا اظہار کرتے رہیں گے کہ یہی اساس ایمان ہے اور ذریعہ نجات بھی۔
کالم
کربلا ! حریت فکر کا پہلا منشور
- by web desk
- جولائی 5, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 36 Views
- 19 گھنٹے ago
