گزشتہ سے پیوستہ
ان دنوں پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے وزیر اعلیٰ خان عبدالقیوم خان کشمیری النسل تھے اور انہوں نے اس صوبہ کو ریفرنڈم کے ذریعہ پاکستان کا حصہ بنوایا تھا۔انہوں نے پٹھان قبائلیوں کو اکٹھا کر کے بتایا کہ وہ سکھ افواج جنہوں نے پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اب وہ کشمیر میں آگئی ہے اور مظفر آباد آپ کے قصبہ گڑھی حبیب اللہ سے آٹھ میل ہے ہو سکتا ہے وہ وہاں تک نہ رکیں اور صوبہ سرحد میں آ گھسیں اور آپ کی بہنوں بیٹیوں کو اٹھا کر لے جائیں۔ غصے کے مارے قبائلی کشمیر میں داخل ہوگئے۔ پونچھ اور ملحقہ علاقوں میں پہلے سے مسلح جدوجہد جاری تھی۔ گلگت کے لوگوں کے دباو¿ میں انگریز افسروں کے ساتھ مل کر صوبیدار میجر بابر نے مہاراجہ کی طرف سے مقرر کردہ گورنر بریگیڈیر گھنسارا سنگھ کو قابو کر کے یکم نومبر1947ءکو گلگت ایجنسی کے قیام سے لے کر گلگت لیز ایگریمنٹ 1935 تک اس علاقہ کی انتظام ایک انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کی ذمہ داری تھی جو اس علاقہ سے متصل ممالک چین اور روس پر نظر رکھتے تھے۔ اس معاہدہ کے تحت برٹش انڈیا کی حکومت نے گلگت ایجنسی میں براہ راست اپنی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ قائم کی جسے گلگت سکاو¿ٹس کے کمانڈنٹ کی اعانت حاصل تھی۔ تقسیم ہند کے منصوبہ کے تحت برطانوی حکومت نے گلگت لیز ایگریمنٹ ختم کر دیا اور گلگت ایجنسی مہاراجہ کے حوالے ہوگئی تو مہاراجہ نے پہلے کرنل بلدیو سنگھ پٹھانیہ کو گلگت کا گورنر مقرر کیا پھر اسکی جگہ بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کر دیا۔ گلگت کے لوگوں کے دباو¿ میں انگریز افسر میجر ویلم بروان کمانڈنٹ گلگت سکاو¿ٹس کے ساتھ مل کر صوبیدار میجر بابر نے مہاراجہ کی طرف سے مقرر کردہ گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو قابو کر کے یکم نومبر1947ءکو گلگت کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ یکم نومبر1947ءکو ڈوگرہ حکومت سے آزادی گلگت بلتستان کا اعلان کیا گیا۔ شاہ رئیس خان کو آزاد جمہوریہ گلگت بلتستان کا صدر مقرر کیا گیا۔ بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو قیدیوں کے تبادلے میں ہندوستان کے حوالے کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں قائم ہونے والی آزاد حکومت صرف 16 دن تک برقرار رہی پھر حکومت پاکستان نے اس علاقہ کو معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے تحت پاکستان کے زیر انتظام کر لیا اور تاحال یہ علاقہ پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ ایک برس کے دوران بلتستان کے لوگوں نے سخت مزاحمت کے بعد پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی۔
انیس سونوے کی دہائی میں کشمیر ی وادی میںپھر اٹھ کھڑے ہوئے اور حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ اس دوران جموںصوبہ میںمسلمان قتل عام اور ہجرت کے باعث اقلیت میں تبدیل ہوکر رہ گئے اور ان کی اکثریت دو اضلاع ڈوڈہ اور راجوڑی تک محدود ہوگئی۔ وادی کشمیر خون میں ڈوب گئی ۔ پھر کارگل کی جنگ ہوئی اور اس کے نتیجہ میں پاکستان پر بین الاقوامی دباو¿ پڑا ۔1998ءمیں امریکہ نے بھی کشمیر پر اپنی پالیسی تبدیل کر لی ۔ چین اپنے تبتی علاقے کی بازیابی میں مصروف ہوگیا۔
اب بیک ڈور ڈپلومیسی کا دور تھا جس میں بہت پیشرفت ہوئی ۔ کشمیر کی ریاست کی تقسیم اور وادی کے لوگوں کے کنٹرول لائن کے آرپار روابط اور باآسانی سفر کے علاوہ تجارت اور دیگر انتظامات کے علاوہ بات وادی کے مشترکہ کنٹرول تک کے امکانات تک جا پہنچی ۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ شاید پاکستان اور بھارت کسی حل تک پہنچ رہے ہیں۔
پروفیسر وحید الزمان طارق کہتے ہیں کہ اس دوران انہیں بھی سرکاری طورپر بھارت جانے کا موقع ملا پھر نیویارک میں مقیم مشہور کشمیری بزنس مین فاروق کاٹھیا سے رابطہ ہوا اور اس سلسلے میں اپنا مقدور بھر کردار ادا کیا۔ اس دوران میرا رابطہ کنٹرول لائن کے اس پار کشمیر کے اہل علم اقبال شناسوں سے بھی ہوا۔ اعتماد کی فضا کو قائم کرنے اور پرامن حل ڈھونڈنے کی کوششیں جاری رہیں۔ من موہن سنگھ اور باجپائی کی حکومتیں بھی اس مسئلہ کے باعزت حل کے سلسلہ میں پس پردہ رابطوں کے حق میں تھیں۔
اسی دوران بھارت میں مودی کی ہندوتوا پر مبنی شدت پسند حکومت قائم ہوئی ۔ اس حکومت نے آج سے چار برس قبل کشمیر پر قبضہ مکمل کر کے آرٹیکل 370کا خاتمہ کر کے کشمیر کا آئین کالعدم قرار دے کر وہاں بھارتیوں کو آبادکاری کی اجازت دے کر اس کے تشخص کو پامال کر دیا۔ آج دنیا خاموش ہے اور کشمیری مایوس۔ ۔۔۔(ختم شد)
٭٭٭٭
کالم
کشمیر کیسے کھو یا….؟
- by web desk
- ستمبر 3, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 688 Views
- 2 سال ago