کالم

کلام اقبالؒ کا محور قرآن اور عشق محمد رسول اللہﷺ

riaz chu

علامہ اقبالؒ کی زندگی‘ شخصیت‘ شاعری اور نثرنگاری کا مطالعہ کریں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ‘ علامہ اقبالؒ کا تعلقِ خاطر‘ ایک قلبی و ذہنی وابستگی اور عشق و محبت کا جذبہ مطالعہ اقبالؒ کا ایک نمایاں اور زرّیں باب نظر آتا ہے۔ ان کی زندگی کے ہر دور میں عشقِ رسولایک زندہ‘ توانا اور ایک انقلاب انگیز جذبے کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ کلام اقبالؒ اللہ تعالی،محسن انسانیتاور قرآن مجید کے تصورخلافت کے گرد گھومتاہے اور اس کاخلاصہ یہ ہے کہ جو نبی کاہوجاتاہے پھریہ ساری کائنات اسی کی ہوجاتی ہے۔
ابتدا ہی سے اقبالؒ کی شاعری میں جذبہ عشق رسول کا ایک والہانہ اظہار ملتا ہے مگر اظہارِ عقیدت کا انداز بالعموم رسمی و روایتی ہے۔ وہ اس عبوری دور سے آگے بڑھتے ہیں تو ا±ن کی توصیف ِمحمد میں ہمیں ایک خاص معنویت نظر آتی ہے‘ مثلاًآنحضور کی پیغمبرانہ اور بشری عظمت اور آپ کی رحمت و شفقت کا پہلو ا±ن کےلئے سب سے زیادہ جذب و کشش کا باعث بنتا ہے۔عالمی مجلس بیداری فکراقبالؒ کی ادبی نشست میں ”لوح وقلم تیرے ہیں “کے عنوان پرماہراقبالیات طارق شاہین نے اپنے خطاب میں پہلے قلم اورپھرلوح کی تفصیلی تشریح کی اور قرآن و حدیث اور لغت العربیہ سے متعددحوالے بھی دیے۔اس کے بعد انہوں نے اقبالؒیات میں لوح و قلم پرموجودمواد میں سے انتخاب پیش کیا۔انہوں نے اس مشہور واقعہ کابھی ذکرکیاکہ جب علامہؒ سے پوچھا گیا کہ آپ جیساپڑھالکھاشخص بھی نبی پروحی کے نزول کایقین رکھتاہے؟توانہوں نے کہا نبی تودورکی بات ہے خود مجھ پر ایک خاص کیفیت میں اشعار کانزول ہوتاہے۔ نبیکاقرب اس لوح و قلم کی معرفت ملک کاباعث بن سکتا ہے ۔تقریب کے شرکاءکا کہنا تھا کہ اقبالؒ یہ سمجھاناچاہتے ہیں کہ نبیسے وفاکے نتیجے میں دنیاچلانے کااختیار امت مسلمہ کو مل جائے گا۔ اس شعرمیں نبیسے وفاکاانعام بتایاگیاکہ کل عالم مومن جانبازکی میراث ہے۔جواب شکوہ کایہ آخری شعر دراصل کلام اقبالؒ کا حاصل ہے۔ کلام اقبالؒ کے فارسی حصے سے متعدداشعاربھی پیش کیے جن میں علامہ نے خود سے لوح و قلم کی تفصیلی وضاحت کی تھی۔تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ امت مسلمہ نے جب تک اپنے نبی سے اپنا رشتہ الفت و محبت استوار رکھا، اوج ثریا ان کا مقدر رہا جیسے ہی دامن مصطفیٰ ہاتھ سے گیا امت مسلمہ زوال کا شکار ہو گئی۔ ذات رسالت مآب کی ناموس پر ہونے والے حملوں کا جواب فقط اسی صورت میں ممکن ہے کہ امت مسلمہ اپنے نبی سے اپنا تعلق عشق و محبت بحال کرے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:”کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کےلئے اس کے والدین، اس کی اولاد اور خود اس کی اپنی جان سے زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاو¿ں“ ۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری، تقریروں اور تحریروں میں اسی عشق رسول کو دلوں میں بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ علامہ اقبالؒ کے پیغام کو عام کیا جائے اور آئندہ آنے والی نسلوں میں عشق رسول کی شمع روشن کریں۔ صرف یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے امت مرحومہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کر سکتی ہے ۔ علامہ اقبالؒ کی خواہش یہ تھی کہ وہ اپنا نور بصیرت آئندہ آنے والی نسلوں میں منتقل کر دیں۔کلام اقبالؒؒ میں عشق رسول کے اظہار میں جب شیفتگی و وارفتگی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ وہ بزرگانِ دین کا فیضانِ نظر تھا۔ اس میں مکتب کی کرامت کا دخل نہیں تھا۔ آپ کے کلام میں شیخ عطار ، نظام الدین اولیا ، حضرت مجدد الف ثانی ، مولانا روم، اور امام غزالی کا تذکرہ اس امر پر شاہد ہے۔ اقبالؒؒ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی تمام تر عقل اور فلسفہ دانی کو نبی کریم کے قدموں میں ڈھیر کر دیا ہے۔ اقبالؒؒ کے ذہن میں عشق و مستی کا اوّل اور آخری محور ایک ہی ہونا چاہیے اور وہ محور ہے نبی کریم کی ذات جو ذات ِ تجلیات ہے۔علامہ اقبالؒؒ کا انگ انگ عشقِ رسول میں ڈوبا ہوا تھا۔ سوز و گداز قلبی انہیں اللّٰہ رب العزت کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ علامہ صاحب کی ذات میں جو سوز و گداز تھا، اسی کے سبب جب ان کے سامنے نبی اکرمکا ذکر ہوتا تو بے چین ہو جاتے۔ عشقِ رسول اور مدینہ پاک سے دوری انہیں رلاتی رہتی۔ حضور نبی کریم کی سیرتِ طیبہ کے ہر پہلو سے واقف تھے۔ جب کبھی ذکرِ رسول کرنا ہوتا تو باوضو ہو کر محبوبِ دو جہاں کو یاد کرتے۔سیرت و حیاتِ نبی کے ہر پہلو پر ایسی عام فہم، سیر حاصل اور شگفتہ گفتگو فرماتے کہ ناقدین دنگ رہ جاتے۔ اقبالؒؒ کی شاعری حب رسول کے ساتھ ساتھ اطاعتِ رسول کا بھی درس دیتی ہے۔ علامہ صاحب شاعر، مفکر اور فلسفی تو تھے ہی، ان کے دل میں حضور پاک کی ذاتِ مبارک کی عظمت و محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کی شاعری کا ماخذ اسلام اور اس کی تعلیمات تھیں۔علامہ اقبالؒ تما م حیات ا س پیغام کاببا نگ دہل تاکیدی الفاظ میں اعلا ن کر تے رہے کہ اے اللہ کے بندوں ! اے مسلمانوں! اپنے آپ کو مصطفی تک پہنچا و¿، کیو نکہ آپہی کی ذاتِ گرامی سارادین ہے۔ اگر تم وہا ں تک رسائی حاصل نا کر سکو توسمجھ لو کہ تم اسلام سے دور ہو اور بولہبی میں گرفتار ہو۔علا مہ اقبالؒ عشق کو ہی با عثِ تکوین کا ئنات تصور کر تے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ انسان سوائے عشق کے اپنی زما م کسی کے حوالے نہیں کر تا،عشق ہی اسے خود سپردگی سکھا تا ہے،عشق ہی اسے اپنی رضا کو محبوب کی رضا کے سپرد کر نے پر آما دہ کرتا ہے۔ چنا نچہ علامہ اقبا ل فرما تے ہیں:
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے