کالم

کچھوے کا عالمی دن اور ہماری رفتار

کچھوے اور خرگوش کی کہانی تو ہم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں جس میں کچھوا خرگوش سے جیت جاتا ہے لیکن آج 23مئی ہے اور اس دن اصل میں کچھووں کا دن ہے وہ بھی عالمی سطح پر منایا جا رہا ہے بطور قوم ہم نے بھی جیت کے لیے اپنی رفتار کچھوے جیسی ہی رکھی ہوئی ہے قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہم نے کسی بھی شعبے میں ترقی نہیں کی بلکہ ہر شعبے کا بیڑہ ہی غرق کیا ہے آج چونکہ دنیا بھر میں کچھووں کا عالمی دن ”ورلڈ ٹرٹل ڈے منایا جارہا ہے اس لیے پہلے کچھووں کا ذکر کرتے ہیں اسکے بعدپاکستانی قوم کی بات کرینگے جنہوں نے کچھوے اور خرگوش کی کہانی پڑھ پڑھ کر اسی رفتار سے چلنے کا فیصلہ کررکھا ہے ۔ کچھوﺅں کے نام اس دن کے منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں کچھووں کی اہمیت اور ان کے تحفظ کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے اس دن کو منانے کا آغاز 2000ءمیں ہوا تھا کیونکہ کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے یہ لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔ اس کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے اور عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 تا 50 برس تک ہوسکتی ہے بعض کچھوے سو سال کی عمر بھی پاتے ہیں سمندری کچھووں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔انٹارکٹکا کے علاوہ کچھوا دنیا کے تمام براعظموں میں پایا جاتا ہے کچھوے انتہائی سرد موسم میں زندہ نہیں رہ سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ برفیلے علاقوں میں نہیں پائے جاتے بدقسمتی سے اس وقت کچھووں کی زیادہ تر اقسام معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت (آئی یو سی این)کے مطابق دنیا بھر میں کچھوو ں کی 300میں سے 129 اقسام اپنی بقا کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں اور یہ اقسام معمولی یا شدید قسم کے خطرات سے دو چار ہیں کچھوو ں کی ممکنہ معدومی اور ان کی آبادی میں کمی کی وجوہات ان کا بے دریغ شکار، غیر قانونی تجارت اور ان کی پناہ گاہوں میں کمی واقع ہونا ہے یہ تو تھی کچھوﺅں کی باتیں ہم لوگوں نے چونکہ بچپن سے ہی کچھوے کی کہانی سن رکھی ہے اور خوش قسمتی سے اب تک دیکھتے بھی آئے ہیں کیونکہ پاکستان میں کچھوے کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے ہیں یہاں تک کہ ہمارے دیہاتوں کے چھپڑوں اور جوہڑوں سمیت کھالوں اور نہروں میں بھی پائے جاتے ہیں دیہاتوں میں جب بھی کوئی کچھوا کی کھال یا نہر میں نظر آئے تو ہمارے بچے اسے پکڑ کر اس کے ساتھ کھیلنا شروع کردیتے ہیں کچھوا خظرہ محسوس کرتے ہی اپنی گردن اپنے خول کے اندر کرلیتا ہے اور ہم لوگ بغیر کسی خطرے کے ہی اپنی گردنیں اندر رکھتے ہیں ڈرپوک اس حد تک بن چکے ہیں کہ بازار کی ایک نکر پر فائرنگ ہو جائے تو دوسری نکر والے شٹر نیچے کرکے اندر سے گردنیں نکال کر دوسروں سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا اور بہادر اتنے ہیں کہ کسی شریف راہ گیر کو غنڈے قسم کے لوگ لوٹ رہے ہوں تو ہم سائڈ سے کنی کترا کر نکل جاتے ہیں اور بھوک کا مارا کسی ہوٹل سے ایک روٹی چرا لے تو اسے ہم باجماعت ثواب کی نیت سے پھینٹی لگاتے ہیں جبکہ خود دار اور غیرت مند اتنے ہیں کہ غیروں کے سامنے جھولی پھیلا کر قرض کی بھیک مانگنے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں سمجھدار اور عقل مند ہم اتنے ہیں کہ الیکشن میں بھی انہیں ووٹ دیتے ہیں جو ہمارے لوٹے ہوئے پیسوں سے ہمیں ایک پلیٹ بریانی دیدے ایماندار ہم اتنے ہیں کہ دوسروں کے مال پر قبضہ کرنا عین عبادت سمجھتے ہیں قیام پاکستان کے وقت اپنے پیاروں کی جان ،مال کی قربانی دینے کے بعد بے سرسامانی کی حالت میں ہم پاکستان پہنچے تو کئی کئی دن کے فاقے برداشت کرنے پڑے رہنے کو جگہ نہیں ملی لیکن جذبہ تھا کچھ کرنے کا اس لیے ہر شخص نے خرگوش کی طرح دوڑ لگادی پھر ایک وقت آیا کہ دنیا نے دیکھا کہ وہ قوم جس کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تھی ،رہنے کو مکان نہیں تھا صرف چند سالوں میں ہی اس مقام پر آگئے کہ ہم نے دوسرے ممالک کی مالی مدد شروع کردی کراچی روشنیوں کا شہر بن گیا دنیا حیرت سے پاکستان کی طرف دیکھ رہی تھی اس وقت دنیا کا عالم کیا ہوگا جب سپارکو نے پہلا راکٹ رہبر ون 7 جون 1962 کو لانچ کیا رہبر-I دو مراحل والا ٹھوس ایندھن والا راکٹ تھا رہبر-1 جب 7 جون 1962 کو لانچ کیا گیا تو اس سے قبل نو ماہ کی مدت میں پاکستانی ٹیم کا قیام عمل میں آیا ان کی تربیت امریکی تنصیبات میں مکمل ہوئی راکٹ رینج کے آلات اور آلات کی خریداری سمیت سائنسی پے لوڈز کا انتخاب سونمیانی میں راکٹ رینج کی تعمیر مکمل ہوئی اور پہلا راکٹ کامیابی سے لانچ ہوا یہ ایک انوکھا کارنامہ تھا جس نے ناسا کے ماہرین کو بھی حیران کر دیا پاکستان تمام ترقی پذیر (برازیل، چین اور بھارت سمیت) اور اسلامی ممالک میں پہلا ملک تھا جس نے سائنسی راکٹری پروگرام کیا رہبر-1 کی لانچنگ کے ساتھ ہی پاکستان ایشیا کا تیسرا ملک، جنوبی ایشیا اور اسلامی دنیا کا پہلا ملک اور پوری دنیا کا دسواں ملک بن گیا جس نے خلا میں جہاز بھیجا بس پھر اسکے بعد خرگوش کو نیند آگئی یا سلا دیا گیا اور کچھوا اپنی چال چلتا رہا اس نے راستے میں خرگوش کو خواب دیکھتے ہوئے دیکھا لیکن جگایا نہیں اور خود اپنی منزل تک پہنچ گیا کچھوا خطرہ دیکھتے ہی اپنی گردن اپنے سخت خول کے اندر کر کے د سکون کرلیتا ہے جبکہ ہمارے ہاں کچھ لوگوں کی گردنوں میں سریا آیا ہوا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہماری ترقی کے سفر میں روڑے اٹکائے خود لوٹ مار کی پاکستان میںتو کیا دنیا بھر میں اپنی جائیدادیں بنا لیںاور جو یہاں سے تنگ آکر اپنا مستقبل بنانے بیرون ممالک گئے پیچھے سے مفاد پرستوں نے انکی جائیدادوں پر قبضے کر لیے اور تو اور یہاں تک کہ خون کے رشتوں میں بھی تبدیلی آگئی ایک بھائی دوسرے بھائی کا دشمن بن گیا اور ہماری سوسائیٹیاں قبضہ گروپوں کی سرپرست بن گئی لاہور کی سب سے پرانی ماڈل ٹاﺅن سوسائٹی ہے اسکے بی بلاک میں ایک شاندار کوٹھی 71بھی ہے جسکے مکین امریکہ چلے گئے تو پیچھے سے انکے بھائی نے ہی قبضہ کرکے گیسٹ ہائس بنا لیا حالانکہ سوسائٹی قانون کے مطابق رہائشی علاقے میں گیسٹ ہاﺅس نہیں بن سکتا اب امریکہ سے آیا ہوا ساجد خان اپنے حق کے لیے کبھی سوسائٹی دفت کے چکر لگاتا ہے تو کبھی تھانے اور کچہری میں خوار ہو رہا ہے لیکن اسکی سننے والا کوئی نہیں کیونکہ یہاں پر ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جن کی گردنوں میں سریا آیا ہوا خیر بات ہو رہی تھی کچھوے کی جسکا آج عالمی دن منایا جارہا ہے ہمیں بھی اس کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ یہ اب نایاب ہوتا جارہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri