کالم

گندم بحران:کسان کی مشکلات میں اضافہ؟

رواں سال کِسان نے گندم وافر مقدار میں اگائی اور اپنے اندر امید کی جوت جگائی کہ شاید وہ نہ صرف قرض پہ لی گئی کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتیں چکائے گابلکہ اپنی زندگی کو بھی خوشحال بنا پائے گا۔ شومئی قسمت موجودہ صورتحال میں کسان کی حالت پہلے سے ابتر ہوگئی ہے۔ دستیاب معلومات سے حکومت کے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ سابق نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ نے وافر مقدار میں گندم درآمد کروالی تھی جو سرکاری گوداموں میں موجود ہے۔ جب یہ بات سامنے آئی تو حکومت ِ وقت نے انکوائری کمیشن قائم کرنے کا عندیہ دیا مگر معاملہ کھٹائی میں پڑگیااور تاحال اس انکوائری کا کسی کو علم نہیں۔ صوبوں کے وزرائے اعلی سے جب کسان سے گندم خریدنے کی بات کی گئی تو مشیران نے دور کی کوڑ ی لاتے ہوئے کہا کہ مڈل مین کسان سے گندم اونے پونے داموں خرید چکا ہے اور اب گندم کا ذخیرہ مڈل مین کے پاس ہے اس لئے حکومت مڈل مین سے گندم نہیں خریدے گی کیونکہ مڈل مین سے گندم خریدنے کا مطلب مڈل مین کو فائدہ پہنچانا ہے۔ گندم کے رواں سیزن سے قبل گندم فی من چار سے پانچ ہزار روپے مل رہی تھی مگر رواں سیزن کے اختتام اور موجودہ صورت حال کے مطابق فی من قیمت دو ہزار سے بائس سو روپے ہے مگر خریدار نہیں مل رہا۔ مجبوراً کسان مڈل مین سمیت دیگر افراد کو اونے پونے داموں بیچنے پر مجبور ہے۔ پہلے کسان کو یوریا کھاد ایکڑ کے حساب سے بوری یا دو بوری قومی شناختی کارڈ پہ دی جاتی رہی ہے۔ مجبوراً وہ بلیک میں کھاد خریدتا رہا ہے۔ کھاد میں ملاوٹ کا مسئلہ بھی شدت اختیار کرچکا ہے۔ پھر زرعی ادویات اور ان ادویات میں ملاوٹ کا مسئلہ بھی زور پکڑ چکا ہے۔ کسان کو آج تک نامیاتی کھاد بنانے یا اس کے جدید طریقہ کار کے متعلق آگاہی نہیں دی گئی۔ زہریلی کھادوں نے جہاں ایک طرف زمین کا چہرہ لال کردیا ہے وہیں زہریلی اور ملاوٹی کھادوں کے زور سے پیدا ہونے والی گندم نے کھانے والوں کا ذائقہ بگاڑ دیا ہے۔ دوسری جانب کسان کی کاشت کاری کی قوت جواب دینے لگی ہے۔ عالمی مالیاتی بینک اور بین الاقوامی مانیٹرنگ فنڈ کے طے کردہ پیمانوں کے مطابق قرض لینے والے ممالک گندم آگاہی نہیں سکتے۔ بلکہ انہوں نے یہ گندم قرض کی رقم سے باہر کے ممالک سے خریدنی ہوتی ہے۔ یہ کام قرض لینے والے ممالک کے متعلقہ وزرائ، سیکرٹریز اور دیگر متعلقہ افراد کی روپورٹوں اور کاوشوں کی بدولت سرانجام دیا جاتاہے۔ گندم کی درآمد کا طریقہ ِ کار عالمی مالیاتی بینک کے منصوبہ سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کے اندر درج ہے۔ ترقی پذیر ممالک پہ زور دیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی معیشت مضبوط کرنا ہے تو وہ ہر صورت میں گندم اور چاول کی بجائے کیش کراپس اگائیں گے۔ اگر حکومت یہ معاملات طے کرچکی تھی تو کسان کو باخبر کرنے میں کیا حرج تھا کہ وہ گندم کی بجائے سرخ مرچ، کپاس اور سبزیاں اگائیں تاکہ کم از کم انہیں نقصان نہ ہو اور حکومت اِن کیش کراپس کی برآمد کا طریقہ ِ کار اپناکر نہ صرف زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرسکتی ہے بلکہ کسان کو بھی خوشحال بناسکتی ہے۔ کسان کو لاعلم رکھ کر اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا کہاں کا انصاف ہے؟اگر ہم اِس قدر مجبور ہوچکے ہیں توہمیں چاہئے کہ ہم اِسی صورتحال میں کچھ ایسے ذرائع تلاش کریں جس سے ہم اپنی حالت سدھار سکیں۔ مثلا ًچین کی کئی کمپنیوں نے کنٹریکٹ فارمنگ یا معاہداتی زراعت کا تصور دیا ہے۔ اِس منصوبہ کے تحت چین کی کئی کمپنیاں کسانوں سے فصل اگانے سے قبل معاہدہ کرتی ہیں کہ وہ گندم، کپاس، سبزیاں، مرچیں وغیرہ اگائے گا تو چینی کمپنیاں اس ریٹ پر وہ فصل خریدیں گی جووہ بیجائی سے پہلے کسان سے طے کرچکی ہونگی۔ کئی چینی کمپنیاں بھارتی شہر چنائی میں سرخ مرچ کی خریداری کے حوالے سے ایسے کئی معاہدے کرچکی ہیں۔بھارت ہر سال سرخ مرچ اور دیگر مصالہ جات کی مد میں تین ارب ڈالرز سے زائد کا زرِ مبادلہ محض چین سے کمارہا ہے۔اِس معاملے کی بابت جب چینی کمپنیوں نے پاکستان سے دریافت کیا تو ہمارے پاس گزشتہ سال محض پندرہ ٹن سرخ مرچ تھی۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کچھ نہ کرنے کا تہیہ کرچکے ہیں؟ اگر ہمارے ہاں زراعت کی پالیساں دم توڑ چکی ہیں، زراعت کسان کو فائدہ نہیں دے رہی تو پھر زراعت کا محکمہ ہی ختم کردیا جائے کم از کم سیکرٹیریٹ کے اخراجات کا بوجھ ٹیکس کی مد میں عوام پر تو نہ پڑے۔ جب آپ کسان کو فصل بیجائی سے قبل اس کے متعلق آگاہی نہیں دیں گے، اس کے ساتھ گندم اگانے سے لے کر خریداری تک معاہدہ نہیں کریں گے، اسے اپنی محنت کا پھل مہیا کرنے کی ذمہ داری نہیں اٹھائیں گے تو بہتر ہے آپ زراعت کا سرکاری محکمہ ختم کردیں تاکہ اِس اضافی بوجھ سے تو قوم کی جان چھوٹے۔ چاول حکومتی چکروں سے آزاد ہے تو آج تک چاول کی درآمد یا برآمدات کے معاملے میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوا۔دنیا بھر میں کسان معیشت سمیت قوم کی بھوک مٹانے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم اِس وقت چوبیس کروڑ عوام ہوچکے ہیں۔ ہماری حالت یہ ہے کہ سبزیاں تک درآمد کررہے ہیں۔ ٹماٹر، پیاز، لہسن اور ادرک سمیت دیگر کئی چیزیں ہم بھارت سے منگوانے پہ مجبور ہیں۔ دوسری جانب ہم دعوی کرتے ہیں کہ ہم زرعی ملک ہیں مگر گندم اور سبزیاں تک درآمد کررہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہم گندم باہر سے اِس لئے منگوارہے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں گندم پیدا نہیں ہورہی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ایسا اِس لئے ہوا ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص عقلِ کل ہے۔ جب اِس قدر وافر مقدار میں گندم منگوائی جارہی تھی تو کیا وزیرِ زراعت، سیکرٹریز زراعت سمیت کے علم میں نہیں تھا کہ اِس سال ملک میں گندم بمپر کراپس ہورہی ہے؟ اگر ہم نے درآمد کی تو اپنی گندم کا کیا ہوگا؟ اگرایسا تھا تو پھر گندم باہر سے کیوں منگوائی گئی؟ یعنی ایک طرف غلط زرعی پالیسی اور غلط معلومات کی بنا پر اربوں روپے گندم کی درآمدات پر خرچ ہو گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri