کالم

کیا ریاستیں ایسے چلتی ہیں !

اراکین پنجاب اسمبلی نے اپنی تنخواہیں اور مراعات بڑھا کر عوامی خدمت کے جذبے کا عملی ثبوت پیش کر دیا اب ایک بار پھر عوام کی باری کہ وہ جذبہ حب الوطنی کے تحت کب اور کتنی قربانی پیش کرتی ہے. یہ تو سبھی کو معلوم کہ اراکین کےلئے مالی آسودگی اور ذہنی سکون کے بغیر عوامی ” خدمت” کا کٹھن فریضہ کیونکر ممکن.یہ اضافہ یقینا عوام کے اس یقین کو مزید پختہ کرے گا کہ معزز اراکین صوبے کے مجبور، مقہور اور غریب عوام کےلئے بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں. عوام کو سمجھ ہی نہیں کہ اراکین اسمبلی انتخابات میں کروڑوں اسی جذبہ خدمت کے تحت ہی تو لگاتے اور لٹاتے ہیں. ویسے بھی سرکاری وسائل پر حاصل کردہ توانائی کا مزا ہی الگ. ھم تو اب اس سلوگن کے قائل، کہ ممبران توانا تو پنجاب توانا.اس میں خوش آئند یہ کہ بہت مدت بعد حکومت و اپوزیشن میں باہمی اتفاق کا وہ مظاہرہ دیکھنے کو ملا کہ قوم جسکی مدتوں سے منتظر. اب اگر عوام میں یہ یگانگت نہیں تو اس میں بے چارے حکومتی و اپوزیشن اراکین اسمبلی کا کیا قصور.اب جبکہ ایشیائی ترقیاتی بنک نے غربت کے خاتمہ کےلئے 33 کروڑ ڈالر قرض بھی منظور کر دیا تو ظاہر ہے کہ قرض کی یہ رقم اللے تللے میں تو لٹائی نہیں جا سکتی تھی۔سو اسے حق داروں تک پہنچانے کا انتظام پنجاب اسمبلی نے اگر کر ہی لیا ہے تو جاہل عوام کو چیں بجبیں ہونے کی ضرورت نہیں.ان کے ذمہ ایشیائی ترقیاتی بنک سمیت آئی ایم ایف وغیرہ کے قرض چکانا ہی واجب ہیں سو انہی مزید دلجمعی سے محنت کرنے کی ضرورت ہے. دہشت گردی صرف بارود کی شکل میں ہی نہیں ہمیں اپنوں کی معاشی دہشتگردی کا بھی سامنا ہے۔کرپشن، منی لانڈرنگ اور قومی وسائل کے بے دریغ استعمال کی صورت میں.ڈیجیٹل دہشت گردی کی حالیہ مثال پی ٹی آئی کی جانب سے سینکڑوں لاشوں کا پراپپگنڈا اور اس کے بعد پختونوں کو مشتعل کرنے کی کوشش تھی. خوش قسمتی کہ اسے پذیرائی نہ ملی جس نے ملک کو لسانی تفریق سے تو بچا لیا.مگر بدنصیبی کارکنان کی اس سے بڑی اور کیا کہ وہ ابھی تک لاشوں کے انتظار میں ایک جان کا ضیاع انہیں شاید قبول نہیں کہ جس کو سابق خاتون اول نے کے پی حکومت کے خزانے سے ایک کروڑ کا چیک عطا فرمایا۔سینکڑوں والے اب دوسری لاش بھی سامنے لا نہ سکے مگر قومی و عالمی سطح اور سادہ لوح عوام کے ذہنوں میں جو زہر گھولا گیا اس کا کیا ہو گا۔حکومت تو ہے پی بانجھ کہ وہ تو کچھ کرنے سے رہی مگر ریاستی ادارے بھی شاید قوانین پہ قوانین بنوانے تک ہی محدودکس مہذب ملک میں بدترین ڈیجیٹل دہشت گردی اور کھلم کھلا بیرونی طاقتوں اور اداروں کو ملک میں مداخلت کی دعوت کی اجازت ہے.؟ یہ تو بھلا ہو عالمی برادری کا کہ جو دنیا بھر میں بہنے والے خون مسلم کو پانی سمجھ کر نظر انداز کررہے ہے کہ وہ اگر پاکستان میں سینکڑوں لاشوں کے پراپپگنڈا پر ایکشن لے لیتے تو ! یہ درست کہ گزشتہ کئی برسوں سے نفرت و تفریق اور انتہا پسندانہ سیاست کا چلن ہے جبکہ مذہبی شدت پسندی بھی اپنی جگہ موجود. مگر آج تک اس کے تدارک کی حکمت عملی وضح کی جا سکی اور نہ قوانین.قوانین اگر ہیں بھی تو دعوں سے آگے بات نہیں. ہم برطانوی نظام سے سبق لینے کو کیوں تیار نہیں کہ جنہوں نے شرپسندوں کو گھروں سے نکال نکال کر سزائیں سنائیں. حکومتیں اور عدالتیں اگر دبا میں آنے لگیں اور پسند و نا پسند کی بنیاد پر فیصلے کرنے لگیں تو جناب *!* ریاستیں ایسے نہیں چلتیں.شرپسند ہو یا انتہا پسند ہمارے پاس کسی کےلئے کوئی گنجائش نہیں۔ریاست اقدام کب اٹھاتی ہے۔اس کا انتظار ہے۔مگر کیا ہمارے شہہ دماغ سیاسی راہنماں کو خبر نہیں کہ لیبیا، عراق، شام، یمن اور دیگر مسلم ممالک کو برباد کرنے کے بعد عالمی طاقتوں کی نظر بد پاکستان پر ہے. اور اس کےلئے اب سوشل میڈیا موثر ہتھیار کہ جو ذہنی پراگندگی اور نفرتوں کے پھیلاو کو فوری اور موثر ذریعہ. یہ پٹرولیم کی طرح وہ منبع کہ جسے لسانیت و مذہبی عصبیت کی فقط ایک چنگاری کی ضرورت.بلوچستان میں دہشتگردانہ کارروائیاں، کے پی میں لسانیت کی آگ اور ملک بھر میں آئے روز پرتشدد مظاہرے، یہ سب سازشوں کے مظاہر ہی تو ہیں۔ہماری کوہتاہیاں اپنی جگہ، مگر کیا دشمنوں کی درپردہ اور کھلی سازشیں و کاروائیاں ہمارے اکابرین کو نظر نہیں آ رہیں۔دو روز قبل امریکی حکام کی جانب سے چند کمپنیوں پر پابندی واضح اشارہ کہ دہشت گرد ریاست اسرائیل کو مسلمانوں کا قتل عام حتیٰ کہ مسلم ممالک ایران، شام اور یمن وغیرہ پر حملوں کی کھلی چھٹی مگر پاکستان کو اپنے دفاع کے حق سے بھی محروم کرنے کی خواہش اور کوشش. اس میں کس کا کتنا کردار یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر اب بھی سیاست دان اور مذہبی راہنما اس سے بے نیاز اپنے مفادات کے اسیر !اپوزیشن جماعت کی طرف سے گزشتہ ڈیرھ سال سے احتجاج پر احتجاج اور اب عسکری پراڈکٹس کے بائیکاٹ کا اعلان. گو کہ یہ فلاپ ناکام ہو گیا اور اسے عوامی پذیرائی نہ ملی وگرنہ ڈی ایچ اے کا پلاٹ کوڑیوں کے بھااور فوجی سیمنٹ سڑکوں پر ہر سو بکھرا پڑا ہوتا.ابھی تک تو دونوں کے نرخ کم ہوئے اور نہ سٹاک ایکسچینج میں ایسی کمپنیوں کے حصص.میری دانست میں پی ٹی آئی کارکنان سمیت عوام کو بے جان اشیا کے بائیکاٹ کی بجائے زندہ پراڈکٹس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے کہ اس سے نہ صرف کپتان و شریف برادران سمیت پاکستانی سیاست کے نامور ناموں سے گلو خلاصی ہو سکتی ہے بلکہ سیاسی فضا سے سیاسی انتہا پسندی و گھٹن کا خاتمہ اور تازہ خون و با صلاحیت نوجوانوں کو آگے آنے کا موقع مل سکتا ہے۔اگر 70، 75 سال کے تین چار نوجوان ہی اگر عوام کی حالت پر رحم کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس بائیکاٹ مہم کی افتتاحی تقریب کے طور پر پیش کر دیں تو یقین جانیے قوم ان کو انکی خدمات پر دکھی دل مگر بھر پور خراج تحسین کے ساتھ رخصت کرے گی !۔پاکستان پائندہ باد !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے