کالم

گندم بحران،ذمہ دار حکومت یا نگران؟

درآمد کے فیصلے کے تجزیے کے بعد ضروری ہے کہ اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے پرو کیورمنٹ کے ہدف میں کمی کس حد تک درست ہے ، یہ فیصلہ کیوں لیا گیا اور کیا حکومت واقعتاگندم خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے ؟ جہاں تک اس فیصلے کے لیے جانے کا تعلق ہے تو اس کی دلیل یہ پیش کی جارہی ہے کہ حکومت کی درآمد سے زخیروں میں پہلے سے ہی بہت زیادہ گندم موجود ہے۔
چنانچہ گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے حکومت گندم نہیں خریدی جارہی ۔یہ دلیل اس لیے قابلِ قبول نہیں کہ پنجاب حکومت ماضی میں ابھی دو سال قبل ہی 55لاکھ ٹن تک گندم خرید چکی ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ حکومت کے پاس بڑی حد تک گنجائش ابھی بھی موجود ہے ۔ دوسری دلیل یہ پیش کی جا رہی ہے کہ حکومت کے پاس گندم خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں ۔یہ بھی درست نہیں ۔ خریداری کا عمل بنکوں سے قرض حاصل کرکے سر انجام دیا جاتا ہے اور قرض کی باقاعدہ اجازت وزارتِ خزانہ سے حاصل کی جاتی ہے۔پنجاب حکومت نے ECC سے ایسی کوئی درخواست ہی نہیں کی۔کوئی پلان پیش نہ کرنے کا واضح مطلب ہے کہ اس سال پنجاب حکومت کوئی خریداری کرنے نہیں جا رہی ۔ خریداری کے ہدف میں کمی کا اعلان بھی کسانوں سے ایک دھوکہ ہے ۔ حکومت اگر چھوٹے کسانوں سے بھی گندم نہیں خریدتی تو یہ ان کی بد انتظامی کا ایک اورمظاہر ہ ہو گا۔ اگر گندم کو مارکیٹ کی قوتوں پر چھوڑنا بھی ہے تو یہ عمل تین سے پانچ سال کے عرصہ میں بتدریج ہونا چاہیے تھا جسے ابتدا میں چھوٹے کسانوں تک محدود کیاجاتا بعدازاں صرف ا سٹریٹجک اہداف تک محدود کر لیا جاتا۔مگر یوں گندم کی خریداری سے دستبرداری ، نا صرف دستبرداری بلکہ دھوکہ کسانوں کے اعتماد کو بری طرح جھنجھوڑ کے رکھ دے گا جس کے نتائج انتہائی المناک منظرنامے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ پنجاب حکومت پر گندم کے حوالے سے ماضی کے گردشی قرضوں کا بوجھ 680ارب ہے اور حکومت مزید گردشی قرضے کو بڑھانا نہیں چاہتی ۔ لیکن مرا تجزیہ یہ ہے کہ اس قسم کے فیصلے نہ ان لوگوں نے کبھی ماضی میں کئے نہ ہی ان سے ایسے فیصلوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔ دراصل وفاقی حکومت IMF سے قرض کے ایک نئے منصوبے کیلئے بات چیت شروع کر چکی ہے۔اوریہ تجویز وہیں سے آئی ہے کہ آپ کو اپنے کاندھوں پر ماضی کے قرضوں کے بوجھ کو کم کرنا ہے ۔
اب اگر اس بوجھ کو کم کرنا ہے یا کم ازکم موجودہ سطح تک برقرار رکھنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مزید قرض حاصل نہ کیا جائے تاکہ بین الاقوامی قرض کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ گندم کو مارکیٹ کی قوتوں پر چھوڑنا درست ہے یا نہیں ۔تو ماضی کے سبھی تجربے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ حکومت امدادی قیمت سے جڑے ہوئے کسی مقصد کو حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔اس طریقہ کار نے مقامی مارکیٹ کی قیمتوں کو موثر طریقے سے مستحکم کیا اور نہ ہی کم آمدنی والے صارفین کو کوئی مددفراہم کی ہے۔تاہم، اگر حکومت خریداری محدود کر دیتی ہے، تو وہ 200 ارب روپے کی فوری بچت کر سکتی ہے۔ جسے ریسرچ اور بہتر مارکیٹ پر صرف کرنے سے نا صرف گندم کی پیداواری صلاحیت کو بڑھا یا جا سکتا ہے بلکہ طویل مدت میں، مارکیٹ میں گندم اور آٹے کی قیمتوں میں توازن بھی پیدا کیا جا سکتاہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب مارکیٹ کی قوتوں کو قیمتوں کے تعین کی اجازت دی جاتی ہے، تووہ یقینی طور پر وسائل کی بہتر اور موثر تقسیم کا راستہ ہموار کرتی ہیں ۔ مثال کے طور گندم کے مقابلے میں کاشت ہونیوالی دوسری فصلیں زیادہ منافع بخش ہیں مگر گندم کی امدادی قیمت ان کی کاشت میں رکاوٹ ہے ۔ہماری کھانے والے تیل کی مد میں درآمدات 5ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں ۔ تیلدار فصلوں کی کاشت یقینی طور پر اس بوجھ کو کم کرنے میں معاون ہوسکتی ہے مگر اس سلسلے میں حکومت کو مناسب مارکیٹ کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا ۔ماضی میں ایسا بارہا ہو چکا ہے کہ کسان اگر اس جانب راغب بھی ہوئے تو مناسب قیمت اور مارکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی جانب واپس لوٹ آئے تاہم یہ فیصلے کچھ خدشات کو بھی جنم دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اس فیصلے سے آیند ہ سیزن میں گندم کم رقبے پر کاشت ہوگی ، ہماری ضرورت پوری نہیں ہو گی اور آئندہ برس پھر درآمد۔دراصل گندم کی کم کاشت ہمارے لیے اس لیے پریشان کن ہے کہ ہماری فی ایکڑ پیداوار دنیا کے مقابلے میں نہایت کم ہے ۔ ہم گندم کی کاشت کے رقبہ اور کل پیدوار کے لحاظ سے دنیا بھر میں آٹھویں نمبر پر ہیں مگر فی ایکڑ پیداور میں ہمارا نمبر 56ہے ۔ گذشتہ بر س ہماری فی ایکڑ پیداور 31.5من فی ایکڑ تھی ۔ دراصل حکومت کو گندم کی پیداوری صلاحیت بڑھانے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی ہے ۔جس سے ہم کم رقبے کی کاشت سے بھی نا صرف اپنی ضروریات بلکہ کھانے والے تیل کی مد میں ہونیوالی درآمدات کو بھی کم کرنے میں کامیاب ہو جائینگے ۔ اس سے کسانوں ،معیشت اور ملکی سرمایے کے انتظام کا بھی بھلا ہوگا ۔مارکیٹ لبرلائزیشن کسانوں کو چند ایک مزید خدشات سے بھی دوچار کر سکتی ہے۔
مثلاگندم کی منڈی کو مکمل طور پر مارکیٹ فورسز پر چھوڑنا ممکنہ طور پر رسد میں اتار چڑھاو کا باعث بن سکتا ہے جو قیمتوں میں عدم توازن کا باعث ہو سکتا ہے۔ مگر مارکیٹ کی کڑی نگرانی سے ایسے عوامل پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ حکومت کو یہ یقینی بنانا ہے کہ کسی بھی ایسے کارٹیل کی تشکیل کو روکا جا سکے جو سپلائی اور ڈیمانڈ کے درمیان مصنوعی فرق سے مارکیٹ میں قیمتوں کو متاثر کر سکے۔ بہرحال اس مسئلے کا پائیدارحل یہی ہے کہ حکومت اس مارکیٹ سے بتدریج ٹارگٹڈ سپورٹ میکانزم کے ذریعے تین سے پانچ سالوںکے عرصہ میں مرحلہ وارباہر نکلے۔ ٹارگٹڈ سپورٹ کا دائرہ کار پانچ ایکڑ سے کم اراضی والے چھوٹے کسانوں تک محدود ہو، تاکہ امدادی فوائد سب سے زیادہ مستحق کسانوں تک پہنچ سکیں اور حکومت اپنے کردار کو صرف اسٹریٹجک ذخائر کے انتظام تک محدودکرلے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے