کالم

گندم کی قیمت خریداری کسان احتجاج

پاکستان ایک زرعی ملک ہیے قدرت نے ہمیں چار موسم عطا کیے ہیں دنیا کا بہترین آب پاشی کا نہری نظام انگریز ہمیں دے کر گیا ہیے۔ کیش کراپس گنا گندم چاول اور کپاس کثیر تعداد میں پیدا ہوتی ہیں۔ کبھی ہم کپاس ایکسپورٹ کیا کرتے تھے لیکن اب اپنی ضرورت کیلئے کپاس بھی امپورٹ کرنی پڑتی ہیے۔ غلط حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ہم خوراک میں خودکفیل نہیں ہو سکے ۔ہمارے ہاں ہر قسم کا پھل پیدا ہوتا ہیے مگر ہم نے ایگرو بیسڈ انڈسٹریز قام نہیں کیں جس سے ہم اچھا خاصا زر مبادلہ کما سکتے تھے اور ہم نے ملک میں کاشتکاری کے جدید طریقوں کو متعارف نہیں کرایا۔ حالانکہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ایگریکلچر یونیورسٹی جامشورو سندھ اور پشاور زرعی یونیورسٹی زیادہ پیداوار حاصل کرنے والے بیجوں کی تحقیق میں مصروف ہیں۔ ایگریکلچر ریسرچ کونسل بھی کام کر رہی ہیے ساٹھ کی دہای میں ایوب خان کے دور میں ملک زرعی طور پر خود کفیل ہو گیا تھا. بھارت کو دیکھیں تو مشرقی پنجاب پورے ملک کے لیے خوراک پیدا کرتا ہیے اور فالتو زرعی پیداوار ایکسپورٹ بھی کرتا ہیے۔ گزشتہ سال زخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کی وجہ سے گندم اور آ ٹے کا مصنوعی بحران پیدا کیا گیا۔ رواں سال گندم کی بمپر کراپ پیدا ہوئی۔ سرکاری امدادی قیمت 3900 روپے فی من مقرر کی گئی لیکن اوپن مارکیٹ میں گندم 3200 سو روپے من فروخت ہو رہی ہیے جس سے کسانوں کا استحصال ہو رہا ہیے کیونکہ حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر کو نوازنے کیلئے 35 لاکھ میٹرک ٹن روسی گندم درامد کرنے کی اجازت دی اور لوکل گندم بھی مارکیٹ میں آ گئی جس سے گندم کے ریٹ گر گئے آڑھتی اور زخیرہ اندوز کسانوں سے سستے داموں گندم خرید رہیے ہیں باردانہ نہ ہونے کی وجہ سے گندم کھلے آسمان تلے پڑی ہیے موسم کی شدت اور بارشوں کی وجہ سے گندم کھیتوں میں خراب ہو رہی ہیے اور کسان اونے پونے ریٹس پر گندم فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ کسانوں نے مطالبہ کیا ہیے کہ حکومت مقرر کردہ نرخوں کے مطابق گندم خریدے ۔ مطالبات نہ ماننے کی صورت میں ملک گیر احتجاج اور اگلے سال گندم کاشت نہ کرنے کی دھمکی دی ہیے ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پاسکو کو اٹھارہ ہزار میٹرک ٹن تک گندم کی خریداری کا حکم دے دیا ہیے۔ اس وقت صورت حال انتہائی گمبھیر ہو گئی ہیے ایک طرف کاشتکاروں کو نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہیے دوسری طرف پنجاب حکومت کہ رہی ہیے کہ گندم درآمد کرنے کا فیصلہ نگران حکومت کا تھا اس میں موجودہ پنجاب حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ اس وقت اصل مسئلہ چالیس لاکھ میٹرک ٹن فالتو گندم کا ہیے کہ اس کا کیا کیا جائے حکومت کے پاس گندم زخیرہ کرنے کے لئے جگہ نہیں اور خریداری کے لئے پیسہ نہیں ۔ کسان اپنے مطالبوں سے پیچھے ہٹنے کے لئیے تیار نہیں اور انہوں نے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی وجہ سے احتجاج جاری رکھا ہوا ہیے جو انڈین کسانوں کے احتجاج کی طرح ملک گیر شکل اختیار کر سکتا ہیے اس بحران سے سب سے زیادہ چھوٹا کسان متاثر ہو رہا ہیے۔ ایک طرف گندم مافیہ اڑھتی اور زخیرہ اندوز سرگرم عمل ہیں جو کسانوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر گندم کم نرخ پر خرید کر منافع کمانا چاہتے ہیں ۔ حکومت پنجاب کے محکمہ خوراک کے مطابق اس وقت 35 لاکھ میٹرک ٹن گندم موجود ہیے کسانوں کی گندم میں نمی کی وجہ سے زخیرہ نہیں کیا جا سکتا ۔ جن کسانوں کی گندم میں نمی کم ہیےحکومت چاہیے کہ ان کسانوں کو پانچ سے چھ سو روپے فی من سبسڈی دے کر گندم کی دیگر صوبوں کو نقل و حمل پر پابندی ختم کی جائے۔ حکومت کو کسانوں سے مذاکرات کرکے درمیانہ راستہ نکالنا ہو گا فالتو گندم افغانستان اور دیگر ممالک کو کم قیمت پر ایکسپورٹ کرکے خسارہ کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہیے۔ اس وقت ملک کی معاشی حالت اتنی خراب ہیے کہ ملک کسی احتجاجی تحریک کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب تو عوام یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب نظر آرہے ہیں کہ جب چاول ایکسپورٹ کرکے قیمتیں دگنی کی گئیں عوام کو لوٹا جاتا رہا چینی ایکسپورٹ کرکے مہنگی کر دی گئی ۔ کپاس کے من مانے ریٹس وصول کئیے جاتے رہیے کوئی نہ بولا ۔ اب ہر ایک کی ضرورت گندم کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تو ایک ہنگامہ کھڑا کیا ہوا ہیے آ ٹے کی قیمت کم ہونے سے عوام کو کافی ریلیف ملا ہیے بیس کلو کے تھیلے میں 800 روپے تک کم ہوئے ہیں۔ پنجاب حکومت نے روٹی کی قیمت کم کر کے احسن اقدام اٹھایا ہیے گندم سستی ہونے کی وجہ سے روٹی کی قیمت میں مزید کمی آ نی چاہیے ۔ کسانوں کے مسائل حل کرنے کیلئے درمیانی راستہ نکالنا ہو گا ۔ تحقیق کی جائے کہ جب فروری میں نئی فصل آ نے والی تھی تو گندم پرائیویٹ سیکٹر میں امپورٹ کرنے کی اجازت کس نے دی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے