کالم

ہمسایہ مسلم ممالک فلسطینیوں کی مدد کریں

riaz chu

عرب ممالک کے علماءاور مفتیان نے فتویٰ دیا ہے کہ فلسطین کی ہمسایہ مسلم ریاستیں ، یمن، شام، لبنان اور مصر کا فرض ہے کہ وہ نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کی امداد کریں۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے بتایا کہ ساری مسلم تنظیمیں فلسطینیوں کی مدد کر رہی ہیں۔ فلسطینی بڑی بہادری سے اسرائیلی بربریت کا مقابلہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل بہت پریشان ہے۔ یہ نہایت شرم اور افسوس کی بات ہے کہ مغربی ممالک کے حکمران غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں اور مسلم ممالک کے حکمران تماشا دیکھ رہے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس سنگین صورتحال کے ذریعے مسلم ممالک میں موجود نوجوان نسل کو اکسایا جارہا ہے کہ وہ خود سڑکوں پر نکل کر اپنے حکمرانوں کو احساس دلائیں کہ اگر حکومتوں نے غاصب صہیونیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی تو پھر ایسے گروہ وجود میں آئیں گے جو خود آگے بڑھ کر ظالم صہیونیوں اور ان کے پشت پناہوں کو یہ باور کرائیں گے کہ جنگ کیسے کی جاتی ہے۔اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی ترجمان تل ہینرک نے تسلیم کیا کہ غزہ میں شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاہم فوراً ہی انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور گھبراہٹ میں کہا کہ نشانہ سویلینز نہیں دہشت گرد ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم کی ترجمان کی تاویل اپنی جگہ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ غزہ میں وحشیانہ بمباری میں شہید ہونے والے 9 ہزار سے زائد فلسطینیوں میں نصف تعداد بچوں اور خواتین کی ہیں۔بچوں اور خواتین کی اتنی بڑی تعداد میں شہادتوں پر بچوں کی بہبود اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی شدید احتجاج کیا ہے۔اسرائیلی ترجمان کی بے حسی اور لاعلمی پر سوشل میڈیا پر بھی سوالات کئے جا رہے ہیں۔ صارفین کا کہنا ہے کیا اسرائیل بمباری میں جان سے جانے والے 3 ہزار 700 سے زائد بچوں کو بھی دہشت گرد سمجھتا ہے۔غزہ میں زمینی آپریشن کے دوران اسرائیلی فوج کو سخت جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور گزشتہ دو روز میں اس کے متعدد فوجی ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔حماس کی جانب سے غزہ میں جاری لڑائی کے دوران مزید 16 اسرائیلی فوجی مارنے کا دعویٰ کیا گیا ہے جبکہ اسرائیلی حکام نے 13 فوجیوں کی ہلاکتوں کی تصدیق بھی کردی ہے۔غزہ میں زمینی کارروائی کے لیے آگے بڑھنے والے اسرائیلی فوجیوں پر حماس نے بیت حنون میں ڈرون سے حملہ کیا، اس حملے میں کئی اسرائیلی فوجی مارے گئے، حماس کی جانب سے اسرائیل کو 7 اکتوبر جیسا آپریشن باربار دہرانے کی دھمکی بھی دی گئی۔اسرائیل کے علاقے اشدود، اشکلان اور کئی دیگر مقامات پر بھی حماس نے حملے کیے، ایک میزائل سڑک پر گرا جس سے گاڑیوں کو نقصان ہوا۔فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کی جانب سے غزہ میں گھسنے والے اسرائیلی ٹینکوں کو تباہ کرنے کی ویڈیوز بھی جاری کی گئی ہیں۔دوسری جانب یمن کے مسلح گروہوں نے بھی اسرائیل پر پے در پے ڈرون اورمیزائل حملوں کی ویڈیو جاری کردی ہے۔ انصار اللہ کے ترجمان بریگیڈیر جنرل یحیی ساری نے کہا کہ ان کے اہلکاروں نے اسرائیل کے اہداف پر بیلسٹک اور کروز میزائل داغے ہیں اور یہ اقدام سید عبدالمالک الحوثی کے احکامات پر کیا گیا ہے۔امریکی کانگریس کی ترقی پسند خواتین کا ایک گروہ، جس میں فلسطینی نژاد راشدہ طلیب اور صومالی نڑاد امریکی کانگریس رہنما الہان عمر شامل ہیں، بائیڈن کی اسرائیلی پالیسیوں سے متفق نہیں۔ امریکی عوام فلسطین اور اسرائیلی تنازع کو امریکی حکومت کی حمایت کے باوجودمختلف انداز سے دیکھ رہے ہیں۔ جب سے جنگ شروع ہو ئی ہے اس دن سے امریکا بھر میں غزہ کی حمایت میں لگاتار مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس اور ڈیٹرائٹ جیسے بڑے شہروں میں منعقد ہونے والے ان مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف احتجاج کرنے والے امریکی یہودیوںنے نیویارک کا مرکزی ریلوے اسٹیشن بند کردیا۔ سینکڑوں امریکی یہودیوں نے نیویارک میں واقع دنیا کے سب سے بڑے اور ملک کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر جمع ہو کر غزہ میں جاری اسرائیلی دہشتگردی کے خلاف مظاہرہ کیا اور دھرنا دیا۔ مظاہرین کے دھرنے کے باعث ریلوے اسٹیشن بند ہوگیا اور ٹرینوں کی آمد ورفت میں خلل واقع ہوا۔ نیویارک پولیس نے 200 مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ مظاہرین نے ’ناٹ ان آور نیم‘ [ہمارے نام پر نہیں] کے نعرے لگائے اور اس بات پر زور دیا کہ غزہ کی پٹی پر جاری مسلسل بمباری کو تمام یہودیوں کی حمایت حاصل نہیں۔صرف سیاہ فام امریکی ہی فلسطینیوں کی حمایت نہیں کررہے بلکہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد ہونے والے ایک پول میں انکشاف ہوا کہ 30 سے 35 سال کی عمر کے 25 فیصد امریکی شہری اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت پر مثبت رائے رکھتے ہیں۔ مظاہروں اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر فلسطین کے حق میں بلند ہوتی آوازیں، امریکی عوام کی سوچ میں تبدیلی کا اشارہ دیتی ہیں۔اگر شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی امریکی تنظیمیوں کی نظر سے دیکھا جائے تو اس تنازع میں فلسطین کی حمایت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اگر امریکی صدارتی انتخابات سے قبل یہی حالات رہتے ہیں تو اسرائیل کی حمایت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔اگر طاقتور اسرائیلی لابی جو اپنے لیے حمایت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے، اسے مات دینی ہے تو اس کے لیے ووٹ دینے والے امریکی عوام کی رائے میں تبدیلی اہم ثابت ہوگی۔ حالیہ دنوں میں ہمیں اس بارے میں شواہد بھی ملے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے