کالم

بھارتی کسان ایک بار پھر سراپا احتجاج

riaz-chuadary

بھارتی کسان مودی حکومت کی وعدہ خلافیوں اور ناقص پالیسیوں کےخلاف ایک بار پھر سراپا احتجاج ہوگئے اور رکاوٹیں توڑتے ہوئے دارالحکومت دہلی میں ڈیرے ڈال لئے ۔ انہوں نے حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے یہ الزام لگایا ہے کہ ان کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے جا رہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ملک کے مختلف حصوں سے کسان دارالحکومت کے قریب جمع ہوئے اور پھر مل کر شہر میں داخل ہوئے۔ حکومت نے کسانوں کی ممکنہ آمد کے پیش نظر حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے تاہم وہ کسان کو داخل ہونے سے نہ روک سکے۔کسانوں نے جھنڈے اور بینرز اٹھا رکھے تھے اور وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور پنڈال کی طرف بڑھتے ہوئے راستے میں آنے والی رکاوٹیں توڑ دیں۔گزشتہ ایک سال تک جاری رہنے والے کسانوں کے احتجاج کے بعد حکومت نے ان سے مذاکرات کیے تھے اور ان کے بیش تر مطالبات مان لیے تھے، جس کے بعد کسانوں نے احتجاج ختم کر دیا تھا تاہم آٹھ ماہ بعد کسانوں نے وعدے نہ پورے کرنے کا الزام لگاتے ہوئے 5ہزار سے زیادہ کسان ایک بار پھر دارالحکومت کے مرکزی علاقے میں نریندر مودی اور ان کی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کےلئے جمع ہوگئے۔احتجاج کا اہتمام کرنےوالی تنظیم سمیوک کسان مورچہ کی جانب سے حکومت سے جو مطالبات کیے جا رہے ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ حکومت تمام پیداواروں کےلئے کم سے کم امدادی قیمت کی ضمانت دے، کسانوں کے قرضے معاف کیے جائیں۔اس معاملے پر درخواست کے باوجود ابھی تک بھارت کی وزارت زراعت کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔ستمبر 2020 میں کئی ریاستوں میں کسانوں کے احتجاج کے باوجود حکومت کی جانب سے تین متنازع قوانین کی منظوری دی گئی تھی۔جس پر کسانوں نے احتجاج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ان سے زرعی اشیا کی قیمتوں کے تعین کا اختیار متاثر ہو گا اور بڑے ریٹیلیرز قیمتوں کو کنٹرول کریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دو صنعتکار دوستوں کو نوازنے کیلئے زرعی قوانین متعارف کرائے تھے جس سے 40 فیصد لوگ بیروزگار ہونے کا خدشہ تھا۔ نریندر مودی نے تین زرعی قوانین منظور کیے ہیں جن میں سے پہلے قانون کے اطلاق سے ان دونوں صنعتکاروں کی اناج ، پھل اور سبزیوں پر اجارہ داری 40 فیصد سے بڑھ کر 80 سے 90 فیصد ہوجائے گی۔ مودی کے دوسرے قانون کے ذریعے بڑے صنعتکاروں کو ذخیرہ اندوزی کی اجازت مل جائے گی جس کے باعث وہ چیزوں کو ذخیرہ کرکے بعد میں انہی کسانوں کو مہنگے داموں فروخت کریں گے ۔ تیسرے قانون کے لاگو ہونے پر کسانوں کے پاس عدالت میں جانے کا حق ختم ہوجائے گا اور وہ اپنی فصل کی قیمت حاصل کرنے کیلئے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکیں گے۔زرعی قوانین کے نفاذ سے منڈیاں ختم ہوجائیں گی جس کے باعث کسان، سبزی فروش، ٹھیلوں اور پتھاروں والے افراد بیروزگار ہوجائیں گے۔ گزشتہ برس متنازعہ قوانین کی منظوری کے بعد بڑے پیمانے کا احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور ملک کے مختلف حصوں سے کسانوں کی ریلیاں دارالحکومت پہنچی تھیں جہاں انہوں نے ڈیرے ڈال لیے تھے اور بی جے پی کی حکومت کو دفاعی پوزیشن پر دھکیل دیا تھا۔پچھلے سال نومبر میں کسانوں کے شدید احتجاج کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے زراعت کے حوالے سے بنے تینوں قوانین واپس لینے کا وعدہ کیا تھا۔ پچھلے سال ہونے والے احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے اور چار کسانوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔ اسی طرح 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر نئے زرعی قوانین کےخلاف احتجاج کرنےوالے کسان دارالحکومت دہلی کے لال قلعہ میں داخل ہو گئے تھے اور اس کے اوپر جھنڈا لہرا دیا تھا۔اس پر وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ دلی میں مظاہرین نے لال قلعے پر دھاوا بول کر ملک کی ’توہین‘ کی ہے۔وفاقی حکومت نے کاشتکاروں اور سرکاری حکام پر مشتمل ایک پینل قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا جس کا مقصد ان طریقوں کو تلاش کرنا تھا جن کے ذریعے کم از کم امدادی قیمتوں (ایم اسی پی) کو یقینی بنایا جاسکے اور تمام زرعی پیداوار کےلئے ضمانت شدہ نرخوں کو یقینی بنایا جا سکے ۔ گزشتہ ماہ وفاقی حکومت نے ایک پینل قائم کیا اور کسان تنظیموں کے نمائندوں کو اس پینل میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔عوامی رائے بھی کسانوں کے ساتھ نظر آتی ہے کیونکہ عمومی رائے یہی ہے کہ حکومت بالا بالا ہی فیصلہ کرلیتی ہے اور مقامی لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ نوٹوں کی بندش ہو، کشمیر کا مسئلہ ہو یا شہریت کا قانون ان سب میں عوام کو لگا ہے کہ حکومت نے ان لوگوں کو اپنے فیصلے میں شامل ہی نہیں کیا جو ان قوانین سے براہِ راست متاثر ہو رہے تھے۔ اس سے عوام کا حکومت سے اعتماد کم ہوا ہے۔اصل مسئلہ وہاں زرعی کاروبار سے جڑے چھوٹے دیہاڑی دار مزدوروں کا ہے جو زیادہ تر دوسری ریاستوں سے آتے ہیں۔ یعنی بہار اور اڑیسہ جیسے صوبوں سے غریب لوگ یہاں فصل کی بوائی اور کٹائی کے وقت آتے ہیں۔ کچھ واپس چلے جاتے ہیں اور کچھ اپنے خاندانوں کے ساتھ یہاں بس جاتے ہیں۔ اصل شکار یہ لوگ ہیں۔ انہیں بروقت تنخواہ نہیں دی جاتی اور زیادہ تر سرمایہ بڑے کسان لے جاتے ہیں۔کسان رہنما یوگیندر کا کہنا ہے کہ آج کا کسان اپنے بچے کو کسان نہیں بنانا چاہتا۔ کیوں؟ اس پر سب کو مل کر سوچنا چاہیے۔ متنازع قوانین نے کسانوں، مزدوروں اور چھوٹے دکانداروں کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔ان قوانین کی وجہ سے ہندوستانیوں کو بھوک سے مرنا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے