کالم

ٹی ٹی پی –  ایک غیر اسلامی  دہشت گرد گروپ

(ملک زعیم)

پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی جارہی ہے ، جو مسلسل   دو دہائیوں سے جاری ہے۔  پاکستانی عوام اور ان کی مسلح افواج سے محبت کی داستان  دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں مسلح افواج کی ان گنت قربانیوں اور جوانوں کے خون سے لکھی  گئ ہے۔  خودکش دھماکے اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیاں، جنہیں خوارج جہاد کا نام دے کر معصوم عوام کو بہکاتے ہیں، سراسر اسلام کی تعلیمات کے برعکس ہیں۔  یہی بات دیگر علماء کی تعلیمات میں بھی نظر آتی ہے، جو کہ خودکش بم دھماکوں اور دہشت گردی کی کاروائیوں کو غیر اسلامی اور مذہب کی تعلیمات کے خلاف قراردیتے ہیں۔

 ان خوارج کے بارے میں قرآن میں واضح پیغام موجود ہے. سورہ بقرہ کی آیت 11 میں رب باری تعالی کا ارشاد ہے؛ "اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار! وہی لوگ فسادی ہیں، لیکن وہ نہیں سمجھتے.”

یہ لوگ معصوموں کی جانوں سے کھیلتے ہیں اور  انہیں کو جہاد کے نام پرریاست مخالف جنگ پر اکساتے ہیں، دونوں ہی صورتوں میں نقصان ان معصوم شہریوں کا ہوتا ہے جو ریاست میں صرف اپنی عام زندگی بسر کر رہے ہیں، یا ان کا جو ملک کے رکھوالے ہیں۔  ان دہشتگرد گروہوں کے لیے دہشتگردی اسلام اور شریعت ہے جبکہ دہشتگردی کے خلاف ریاستی کاروائیاں  غیراسلامی  ہیں۔  ٹی ٹی پی  کے خوارج راہنماء نے گزشتہ سال ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا  کہ وہ صحیح راستے پر ہیں، جبکہ ان کے بارے میں الله کا حکم ہے کہ؛    "اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فساد باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ ہی کا ہوجائے پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ ان کے کام دیکھ رہا ہے”۔ (سورہ الانفال،آیت 39)

یہاں  یہ بات  بھی واضح رہے کہ ماضی میں ٹی ٹی پی نے نہ صرف پیغمبراسلام کی متعدد احادیث کو غلط انداز میں توڑ  مروڑ کر پیش کیا بلکہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے اسلامی شریعت کی تعلیمات کا بھی سیاق و سباق کے بغیر جواز دیتے ہوئے ریاست مخالف دہشتگردی  کی کارروائیوں میں بے گناہ اور معصوم جانوں کا خون بہایا۔ یاد رہے کہ ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے پاکستان کے مذہبی علماء کی طرف سے جہاد سے متعلق رہنمائی حاصل کرنے کی پیشکش میں بھی احادیث اور شرعی احکام کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ اس پیشکش کے ردعمل میں علمائے کرام نے وضاحت دی کہ صرف اسلامی ریاست کا حکمران ہی حالات کے مطابق جہاد کا اعلان کر سکتا ہے اور افراد کا جتھہ کبھی بھی اٹھ کر جہاد کا اعلان نہیں کر سکتا، مزید یہ کہ اسلامی ریاست کے حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا بغاوت  ہے اور باغی کو قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔ اسلامی ریاست میں کسی بھی قسم کی بغاوت، فسادات،  ریاست کے ساتھ کسی بھی قسم کا تصادم, تشدد کو بھڑکانے اور لسانی، علاقائی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر افراتفری پھیلانے کی بھی شریعت کی تعلیمات  میں اجازت نہیں ہے۔ علماء اکرام کی اس وضاحت کو طالبان نے رد کر دیا تھا۔

ٹی ٹی پی کے ریاست مخالف پروپگنڈے کو بےنقاب کرنے کے لئے 2018 میں بھی پیغام پاکستان کے نام سے ایک فتویٰ جاری کیا گیا  جس کی مختلف مذہبی اداروں کے اٹھارہ سو سے زائد ممتاز مذہبی اسکالرز نے توثیق کی تھی۔  جنوری 2024 میں اسی فتوے میں ترمیم کی گئی ہے جس میں مختلف مکاتب فکر کے ممتاز مذہبی اسکالرز نے دہشت گردوں اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خلاف متفقہ حکم نامہ جاری کیاہے ۔  تحریر میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسلامی ریاست کا دفاع کرنے والی پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف جنگ کا اعلان حرام ہے اور ریاستی قوانین کی خلاف ورزی اسلامی شریعت کی روشنی میں ممنوع ہے۔ قومی و بین الاقوامی مذہبی علماء نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوۓ نور ولی محسود جیسے خوارج کے پیغامات اور کاروائیوں کوغیر اسلامی قرار دیا ہے۔

مذید برآں، گرشتہ سال حکومت کے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد اس دہشتگرد گروہ نے اپنی  ریاست مخالف پروپیگنڈا اور خونی مہم کو تیز کرنے کے لیے جنگ بندی کے معاہدے کو توڑ دیا تھا۔ علمائے کرام اور مشائخ نے متفقہ طور پراس بات پر زور دیا کہ اسلام امن اور ہم آہنگی کا مذہب ہے اور ٹی ٹی پی جیسے دہشتگرد گروہوں کی طرف سے مذہب کی کوئی بھی  مسخ شدہ تشریح سراسر ان کے ذاتی مفادات کے لیے ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

ایسے میں پیغام پاکستان مدارس میں پڑھنے والے معصوم طلباء کے لیے انتہائی اہم ہے جو کہ ٹی ٹی پی اور دیگر خوارج کے ناپاک عزائم کا آسانی سے شکار بن سکتے ہیں ۔ یہ خوارج گھناؤنے مقاصد کے لیے ان بچوں کی معصومیت کا فائدہ اٹھا کر ان کی  ذہن سازی کرتے ہیں اور ریاست مخالف دہشتگرد کاروائیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں عام عوام تک یہ بات پہنچانا کہ پاکستان، بغیر کسی مذہبی، صوبائی، قبائلی، لسانی، نسلی، فرقہ وارانہ یا کسی اور امتیاز کے  تمام پاکستانیوں کا ہے اور یہ کہ ریاست کے علاوہ کسی بھی جتھے، ادارے یا گروہ کی طرف سے طاقت کا استعمال اور مسلح کارروائی ناقابل قبول ہے، علماء سمیت دیگر مکاتب فکر کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی صحیح تشریح اور تعلیمات کو عوام الناس میں پہنچانے کا مقدس فریضہ سرانجام دیں ،اسی سے طویل المدت امن ممکن ہے جو ہمارے مذہب کا بنیادی جزو ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے