کالم

”مزاحمت سے مفاہمت تک “ایک منفرد کتاب

بلوچستان کی صورتحال پر محب وطن حلقے تشویش کا شکار ہیں۔ یہ تشویش بجا ہے۔ ازلی دشمن اس صوبے کی تزویراتی اہمیت سے واقف ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ البتہ رقبے کے تناسب سے آبادی بہت کم ہے۔ بلوچ عوام روایتی طور پر غیور، جفا کش اور اسلام پسند ہیں۔ قدرت نے وسیع تر رقبے کے حامل اس صوبے کو بیش بہا معدنی ذخائر اور قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ قدرت کی یہ فیاضی اور خطے میں بلوچستان کا منفرد تزویراتی محل وقوع دشمن کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ حالیہ بد امنی اور دہشت گردی کی لہر کے پیچھے وہ غیر ملکی عناصر کار فرما ہیں جو پاکستان کے وجود کو روز اول سے تسلیم نہیں کر پائے۔ جنکی خواہش رہی ہے کہ پاکستان بطور خود مختار ریاست کے قائم نہ رہ سکے۔ مسلم قومیت کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کے وجود پر بار بار لسانی تعصب کے خنجر سے وار کیے جاتے ہیں۔ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کےلئے پاکستان دشمن قوتوں نے بلوچستان کو اپنا اولین ہدف بنا لیا ہے۔ پاکستان کی سالمیت کو دھچکا لگانے سے پہلے دشمن نے اس صوبے کے سماجی، سیاسی اور معاشی ڈھانچے کا بغور جائزہ لیا۔ پاکستان کے وجود پر کاری ضرب لگانے کےلئے سب سے بڑے رقبے کے حامل صوبے بلوچستان میں ان عوامل کا انتخاب کیا جن پر نفرت کا آتش گیر مواد چھڑک کر علیحدگی کی آگ بھڑکائی جا سکتی ہے۔ آج بلوچستان میں اٹھنے والی دہشت گردی کی لہر دشمن کی گہری چالوں کا شاخسانہ ہے۔ علیحدگی کے نعرے بلند کرنے والے عناصر بلوچوں کے ہمدرد نہیں بلکہ وطن دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ یہ ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے کہ بلوچستان میں تسلسل سے جاری بدامنی کی لہر پر قابو پانے کے لیے ہمہ جہت فکری کاوشیں بروئے کار لائی جائیں۔ تمام خامیوں اور کوتاہیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ ان تمام دراڑوں کی نشاندہی کی جائے جن کے راستے دشمن پاکستان کے قلعے کی فصیلیں عبور کر کے ہماری صفوں میں انتشار بپا کرتا ہے۔ جس طرح جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کےلئے وطن کے شمشیر بکف فرزند ہمہ وقت برسر پیکار ہیں بالکل اسی طرح فکری محاذ پر شمشیر قلم سے جہاد کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے پاک چائنہ فرینڈ شپ سینٹر اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک کتاب کی تقریب رونمائی کئی اعتبار سے لائق تحسین ہے۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فاضل مصنف نے بلوچستان کے پیچیدہ حالات پر قلم اٹھایا ہے۔
کتاب کا عنوان ہے مزاحمت سے مفاہمت تک ۔ کتاب کے مصنف عمار مسعود کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ فاضل مصنف عمار مسعود کی عملی، ادبی اور سماجی بنیادوں کی پختگی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے قابل فخر والد محترم انور مسعود پاکستان کے صف اول کے شاعر اور شعبہ تدریس کی نمایاں شخصیت ہیں۔ کتاب کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ یہ بلوچستان میں کئی دہائیوں سے جاری شورش اور مزاحمت کا تحقیقی جائزہ پیش کرتی ہے۔ فاضل مصنف نے بلوچ مزاحمتی تاریخ کے نمایاں کردار میر ہزار خان مری کی جدوجہد کا محققانہ جائزہ لیا ہے۔ اس منفرد کتاب کی اہمیت اس لیے بھی دو چند ہو گئی ہے کہ بلوچستان کے سیاسی و سماجی امور پر گہری نگاہ رکھنے والے محقق خالد فرید نے عرق ریزی کر کے مستند مواد فراہم کیا ہے۔ بلوچستان میں بدامنی کی بھڑکتی آگ کے پیچھے کار فرما خفیہ عناصر کی سر کو بی درست تشخیص اور مسائل کی نشاندہی کے بغیر ممکن نہیں۔ فاضل مصنف عمار مسعود اور محقق خالد فرید نے اس کتاب کے ذریعے یہ فریضہ انجام دیا ہے۔ پاکستان کی بقا اور سالمیت سے دلچسپی رکھنے والے تمام طبقات اور ریاستی اداروں کو اس کتاب سے استفادہ کرنا چاہیے۔ بلوچ عوام خصوصا نوجوانوں کےلئے اس کتاب میں چشم کشا تاریخی حقائق ہیں۔ میر ہزار خان مری نے برسوں تک مسلح مزاحمت کا علم بلند کیا ۔ پاکستان سے علیحدگی کے نعرے بلند کروائے۔ مزاحمتی نظریے کے مضر اثرات رفتہ رفتہ بلوچ رہنما پر عیاں ہوتے چلے گئے۔ پاکستان کے دشمنوں کے عزائم بے نقاب ہو گئے۔ میر ہزار خان مری نے جان لیا کہ حقوق اور حریت کا دلفریب نعرہ گھڑنے والے دراصل بلوچ نوجوانوں کو دہشت گردی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ اس مزاحمتی سراب کا ابتدائی مرکز افغانستان بنا جب سابقہ سوویت یونین کی فوجیں سرخ انقلاب کا علم تھامے افغانستان کی سرزمین پر حملہ آور ہوئیں تو بھارت کی معاونت سے بلوچ اور پشتون قوم پرست کامریڈوں کی ایسی تحریک کے بیج بوئے گئے جسکی کانٹے دار فصل کئی دہائیوں تک پاکستان نے کاٹی۔ جس تحریک کے پیچھے ازلی دشمن بھارت کی سوچ کار فرما ہو اس سے کسی خیر کی توقع رکھنا حماقت ہے۔ میر ہزار خان کی طویل مزاحمتی جدوجہد کا نچوڑ یہی ہے کہ بلوچستان کا روشن مستقبل ریاست پاکستان کی بقا سے مشروط ہے۔مشرقی پاکستان میں لسانی تعصب کی ہتھیار سے ملکی سالمیت کی دھجیاں بکھرنے کا سانحہ دراصل بھارت کی ابلیسی سوچ کا شاخسانہ تھا۔ بلا شبہ فیصلہ سازوں کی کوتاہیوں نے دشمن کا کام آسان بنا دیا۔ آج بلوچستان میں دہشت گردی کی لہر کا اصل ہدف پاکستان ہے۔بلوچستان میں بہنے والا لہو پاکستان کو کمزور کرتا ہے۔ بلوچ نوجوانوں کی بقا اور مستقبل بندوق اٹھانے میں نہیں بلکہ قلم و کتاب سے وابستہ ہے۔ بلوچستان میں معاشی ترقی کا کوئی منصوبہ ملک دشمن قوتوں کے لیے قابل قبول نہیں۔ بلوچوں کو قومی ادارے میں شامل کرنے کا عمل بھی کافی پیچیدہ رہا ہے۔ روایتی طور پر سماجی اور سیاسی بساط پر قبائلی سرداروں کی گرفت بہت مضبوط رہی ہے۔ سرداری بالادستی نے بلوچوں کے استحصال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بلوچ معاشرے میں جمہوری اقدار کا فروغ، روزگار کی فراوانی، قومی ادارے میں شمولیت اور معاشی استحکام پیدا ہو جائے تو مفاد پرست سرداروں کی گرفت کمزور پڑ جائے گی۔ دوسری جانب ازلی دشمن بھارت اور اس کے عالمی سرپرستوں کا تباہ کن کھیل خراب ہو جائے گا۔ فاضل مصنف نے میر ہزار خان مری کی جدوجہد کا احاطہ کر کے بلوچ نوجوانوں میں شعوری بیداری کا فریضہ انجام دیا ہے۔ میر ہزار خان مری اور ان کے پیروکاروں نے بیرونی طاقتوں کے جھانسے میں آ کر مسلح مزاحمت شروع کی اپنا وطن چھوڑا۔ افغانستان کے سنگ لاخ پہاڑوں میں خاک چھانی۔ جعلی انقلاب اور حقوق کے پرفریب نعروں کی حقیقت بہت تلخ تھی۔ بزرگ بلوچ رہنما کو بالآخر یہ ادراک ہو گیا کہ بلوچ قوم کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے۔ پاکستان بلوچوں کا وطن ہے۔ مادر وطن کے آئین سے وابستگی دراصل استحکام اور ترقی کی ضمانت ہے۔ میر ہزار خان مری کے نقش قدم پر چل کر ان کے ساتھ ان کے فرزند ڈاکٹر جمعہ خان مری نے بھی مزاحمت کی پرفریب راہ ترک کر کے ریاست سے مفاہمت کا نعرہ لگایا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے