کالم

اور اب یروشلم پوسٹ

اسرائیل بطور ریاست عالم اسلام کےلئے جو جارحانہ عزائم رکھتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ گزشتہ سال اکتوبر میں حماس کے حملوں کے بعد صیہونی ریاست نے جس بے دری سے فلسطینیوں کا لہو بہایا اس نے اسرائیل اور اسکے حامیوں کا مکروہ چہرہ مزید بے نقاب کر دیا ہے۔ باقی اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اسرائیل کے مسلم دشمن طرز عمل کےخلاف عوامی جذبات کبھی بھی مفاہمانہ نہیں رہے۔ ریاستی سطح پر بھی پاکستان نے اسرائیل کا وجود بطور جائز ریاست کبھی تسلیم نہیں کیا۔ فلسطین سمیت پڑوسی عرب مسلم ریاستوں کے علاقوں پہ اسرائیل کے ناجائز قبضے اور غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر کےخلاف پاکستان نے ہر سفارتی فوم پہ اواز بلند کی ہے۔ بابائے قوم محمد علی جناح نے اسرائیل کی ریاست کو عالم اسلام کے قلب میں پیوست خنجر سے تشبیہہ دی تھی۔ یہ امر غور طلب ہے کہ سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود اسرائیل کی پاکستان کے بارے میں حکمت عملی کیا ہے؟ کیا یہ حکمت عملی غیر جانبداری کے اصول پہ قائم ہے؟ کیا اسرائیل کے فیصلہ ساز پاکستان کے بارے میں مفاہمانہ سوچ کے حامل ہیں یا ہر مستحکم اور مضبوط مسلم ملک کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ حالیہ چند ماہ کے دوران اسرائیلی میڈیا پہ سابق وزیراعظم اور بانی چیئرمین تحریک انصاف کے حوالے سے کچھ ایسا مواد شائع کیا جا رہا ہے جس سے محب وطن حلقوں میں تشویش پیدا ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ یہ مواد مضامین اور بلاگز کی صورت میں جن جرائد نے شائع کیا ہے وہ اسرائیلی ریاست کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں ۔ ان مضامین میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان وہ واحد شخصیت ہیں کہ جو اپنی عوامی شہرت کے بل بوتے پر نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر اسلامی ممالک میں اسرائیل کے لیے مفاہمانہ ماحول بنا سکتے ہیں۔ لگ بھگ دو ہفتے قبل ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار میں ایک وسطی ایشیائی خاتون کا بلاگ شائع ہوا۔ باخبر حلقے ابھی اس بلاگ کے بارے میں تشویش و حیرت میں مبتلا تھے کہ اسی طرز کا ایک اور مضمون یروشلم پوسٹ نامی اسرائیلی اخبار نے شائع کیا ہے۔15ستمبر کو شائع ہونےوالے اس مضمون کے مصنف ہیری ریچر ہیں ۔ مصنف کا تعلق برطانیہ سے ہے وہ برطانوی اراکین پارلیمان کےساتھ بطور معاون و مشیر خدمات بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے ترجمان صف اول کے اخبار میں مضمون کی اشاعت اس بات کا بھی ٹھوس ثبوت ہے کہ مصنف صیہونی ریاست کے خیر خواہ اور سرگرم حمایتی ہیں۔ مصنف کی اسرائیل سے وفاداری پہ کسی صاحب کو اگر شک ہو تو 15 ستمبر کو شائع ہونے والے مضمون کا عنوان پڑھ کر اپنی سوچ کا قبلہ درست کر سکتا ہے۔یہ ابراہام معاہدے کی تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں۔ یہ سمجھ لیجیے کہ اپنے سرپرست اعلی امریکہ بہادر کی کاوشوں سے اسرائیل نے بعض مسلم ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔اس معاہدے کی سالانہ یاد مناتے ہوئے ہیری ریچر نامی مضمون نگار نے پاکستان سے اسرائیل کے تعلقات کی نوعیت پہ نہایت تفصیل سے تجزیہ نگاری کی ہے۔ اس ذہنی کاوش کا لب لباب یہی ہے کہ پاکستان میں روایتی طور پر عوام میں اسرائیل کے متعلق منفی جذبات پائے جاتے ہیں۔ فوج جیسے مضبوط ادارے نے ہمیشہ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کی تجاویز کی بھرپور مخالفت کی ہے ۔ پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک سے اسرائیل کے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا بھاری پتھر صرف بانی چیئرمین پی ٹی ائی ہی اٹھا سکتے ہیں ۔ اس سے قبل ٹائمز آف اسرائیل میں شائع ہونےوالے بلاگ میں صیہونی ریاست کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی رہائی کےلئے کوششیں جاری رکھی جائیں۔اسرائیل جیسی عالمی دہشت گرد ریاست کی پاکستان کی صف اول کی جماعت کے سربراہ سے وابستہ امیدیں اور خوش گمانیاں کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔ یہ مضامین ذاتی رائے سے زیادہ اسرائیلی ریاست اور اس کی حمایتی یہودی لابی کی سوچی سمجھی رائے کے عکاس ہیں ۔ مقام حیرت ہے کہ کسی انصافی بقراط نے ابھی تک اسرائیلی میڈیا کے بانی چیئرمین کے متعلق نرم گوشے کی حقیقت پہ غور کیوں نہیں کیا؟ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے احتجاج اور انتشار پسندانہ رویے کو اسرائیل دوست مغربی میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ عوام کو امریکی سازش کے فریب میں مبتلا کر کے پس پردہ امریکہ و برطانیہ میں بانی چیئرمین کے خاص حمایتی پاکستان کےخلاف اراکین پارلیمان کی حمایت حاصل کرنے میں سرگرداں رہے ہیں ۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ صیہونی لابی کے اثرورسوخ کی بدولت امریکی کانگرس میں انصافی لشکر کے حق میں بھاری اکثریت سے قرارداد پاس ہوئی۔ایسے کڑے وقت میں جبکہ پاک فوج کے افسر و جوان دہشت گردی کی جنگ میں جانیں قربان کر رہے ہیں، بانی چیئرمین نے فوج سے محاذ ارائی کی فضا پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عوامی مقبولیت کے جس منہ زور گھوڑے پہ سوار ہو کر موصوف پاکستان کو فتح کرنے نکلے ہیں اس مقبولیت کو عالمی دہشت گرد اسرائیل اپنے لیے اثاثہ سمجھتا ہے۔ اسی اثاثے کو استعمال کر کے صیہونی لابی پاکستان میں بانی چیئرمین کے ذریعے اپنے لیے سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھنا چاہتی ہے۔یہ خواب پاک فوج اور باشعور محب وطن عوام کی ہوتے ہوئے پورا نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جیل میں بیٹھ کر بھی سابق وزیراعظم صیہونی لابی کے ذریعے ریاست پاکستان اور فوج کیخلاف دباﺅ بڑھانے کےلئے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں ۔ حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی وفاداریوں کو بالائے طاق رکھ کر تحریک انصاف کی باشعور محب وطن عہدے دار اور کارکن اپنے بانی چیئرمین کے عالمی صیہونی لابی اور اسرائیلی ریاست سے تعلقات کو چشم کشا حقائق کی کسوٹی پر پرکھیں۔ اسرائیلی میڈیا میں سابق وزیراعظم کی حمایت میں تجزیہ کاری دراصل پاکستان کےخلاف خطرناک سہولت کاری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے