کالم

دوستانہ حملوں کی نئی ٹیکنالوجی

جنگ طنز و مزاح کا عنوان نہیں ہوتی ۔یہ دراصل دو یا دو سے زیادہ ممالک کے مابین کسی مسئلے یا تنازعے پر انسانی عقل و شعور کے خاتمے اور حماقت و ہلاکت کے آغاز کا اظہار ہوا کرتی ہے۔ہر بڑی جنگ میں تباہی و ہلاکت خیزی کے بعد ، بالآخر متحارب فریق اس بات چیت پر آمادہ ہو جاتے ہیں، جو عقل و شعور کے خاتمے کی وجہ سے ممکن نہیں ہو پا رہی تھی۔اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی نے انسانی فہم و فراست پر عجیب طرح کے اثرات مرتب کئے ہیں۔جن میں سے ایک مضحکہ خیز اثر دکھاوے کی جنگوں کا بھی ہے۔ اگرچہ امریکہ ایسی دکھاوے کی جنگوں کا ماہر بلکہ چمپئن ہے ،مگر حالیہ دنوں میں ایسی مثال ایران اسرائیل کے مابین سامنے آئی ہے ۔ ایک طرف اگر اسرائیلی ریاست امریکہ اور یورپ کی نام نہاد انسان دوستی، انسانی حقوق ،اور انصاف و آزادی کے نعروں اور دعوو¿ں کی تردید و تذلیل کی علامت ہے ، تو دوسری طرف ایران اپنی اسرائیل دشمنی کی مارکیٹنگ سے اندرونی سیاسی استحکام کا بندوست کرنے کےساتھ ساتھ ، اسرائیل کی سلامتی کےلئے امریکہ اور یورپ کے التفات کی بقا کا اہتمام کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ تاریخی طور پر مشرق وسطی میں ایران کو یہودیوں کی جائے امان خیال کیا جاتا رہا ہے۔ ایران کے پرامن ،معاشی طور پر مستحکم اور موثر یہودی ایرانی معیشت کا حصہ ہیں اور یہ کوئی معیوب بات نہیں ۔ میں ایران کا مداح اور محبت کرنے والا ہوں ۔ایرانی ریاست اس خطے کی بہت بڑی تہذیبی قوت ہے ۔ ایران میں روحانیان کی حکومت ایک جدت پسند ،روشن خیال ،مہذب اور تعلیم یافتہ قوم کو قدامت کے حصار میں مقید رکھنے کےلئے دیگر کے علاہ اسرائیل دشمنی کا فارمولہ بھی استعمال کر رہی ہے۔لہٰذا یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیئے کہ کسی ملک کی حکومت کی کسی حکمت عملی کو ہدف تنقید بنانا، اس ریاست کی مخالفت نہیں ہوتی۔اگر یہاں کسی پاکستانی حکومت کو ہدف ملامت بنایا جاتا ہے تو اسے ریاست پاکستان کی مخالفت نہیں کہا جائے گا ۔ اسی طرح ایران کے حکمرانوں یا ان کی اسٹرٹیجک ترجیحات پر تنقید کرنے کا مقصد ایران کی مخالفت نہیں ہے۔مختلف ممالک میں مسلکی بنیادوں پر مسلح مزاحمتی تنظیموں کا قیام ، تربیت، اور ہر طرح کی امداد و معاونت عالمی تناظر میں ایک خطرناک کاروبار یا جان لیوا حکمت عملی شمار کی جاتی ہے ۔ یعنی آپ خود تو معصوم سی صورت بنا کر مسکراتے رہیں،اور آپکے تیار کردہ جنگجو دیگر ممالک میں محدود و متعین جنگی کارروائیاں کرتے رہیں۔ ایسا تادیر نہیں چل سکتا۔ حالیہ تنازعے میں کچھ بھی نیا نہیں ، سوائے اسکے کہ دونوں ممالک نے پہلی بار ایک دوسرے تک اپنی رسائی اور ایک دوسرے کے ڈیفنس سسٹم کے خام ہونے کو ثابت کر دکھایا ہے۔اور ایسا اس احتیاط کے ساتھ کیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے ۔ دمشق میں اپنے قونصل خانے پر حملے اور تباہی کے بعد ایران کی خاموشی اور درپردہ حکمت عملی ممکن نہ رہی تھی، اندرون ملک اپنے عوام میں اپنی ساکھ بحال رکھنے اور بین الاقوامی سطح پر اپنے وقار کی بقا کےلئے ایران کا اسرائیل پر براہِ راست حملہ لازم تھا۔حملہ کیا گیا ،لیکن شیند ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کو ان حملوں کی باقاعدہ اطلاع دی گئی تھی۔اس حملے کے بعد ایران نے اپنے عوام اور دنیا کے سامنے اپنی ساکھ اور دفاعی صلاحیت کو منوا لینے کا تاثر دیا۔ میں حربی امور کا ماہر نہیں ہوں ،لیکن ضرور سمجھتا ہوں کہ اگر ایک بدبخت ملک نے دمشق کے سفارت خانے پر حملہ کر کے سینئر ملٹری آفیسرز کو شہید کیا تھا تو اسرائیل کے ہم پلہ ایک یا ایک سے زیادہ آفیشلز کو بھی کسی دوسرے مقام پر حملہ کر کے حساب برابر کیا جا سکتا تھا۔یہ جواب تاخیر سے دے کر تحیئر کے عنصر کو خارج کر دیا گیا۔ خیر حملہ کر لیا گیا ۔اب اس حملے کے اسرائیل کےلئے فوائد ملاحظہ فرمائیں ۔نیتن یاہو کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا مل گیا ، اسرائیل کو ایرانی ایٹمی تنصیبات پر اچانک حملہ کرنے کا جواز مل گیا۔اور سب سے بڑی بات یہ کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ پر کئے گئے انسانیت سوز مظالم اور ان مظالم کے نتائج سے دنیا کی توجہ ہٹ گئی۔ اسرائیل کی پوری کوشش تھی کہ وہ ایران کو اس جنگ میں براہ راست ملوث کر سکے۔کیا ایران بالواسطہ اسرائیلی مفادات اور تنصیبات پر حملہ نہیں کر سکتا تھا؟ مان لیجیئے کہ ملا جال میں پھنس گئے ہیں۔ اسرائیل کا اس جنگ میں ایران کو براہ راست ملوث کرنا پرانا خواب تھا۔ایران کی مختلف مزاحمتی گروپس کی مدد ،تربیت اور پلاننگ میں مدد اسرائیل کی جان کو آئی ہوئی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri